عسکریت پسندوں سے آزاد پاکستان

پاکستان کے لیے یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کو ادھورا چھوڑ دے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کے عسکریت پسند گروہوں پر قابو پانے کے لیے جامع پالیسی لائحہِ عمل اختیار کرے۔اس تناظر میں اگرچہ پاکستان پہلے ہی ایسے اقدامات اٹھا چکا ہے جس سے عسکریت پسندوں اوران کے حمایتیوں پر دباؤ بڑھا ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ دباؤ برقرار رہنا چاہیے اور اس کا دائرہ ِ کار بڑھانا چاہیے۔ جس سے یہ بات واضح ہو کہ ریاست یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اب پاکستان میں کسی بھی طرح کے عسکریت پسند گروہ کو اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھنے دی جائیں گی۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو چھپنے کے تمام تر مواقع ، جو انہیں ریاست کے مذہبی و قومی دائرے میں میسر ہوتے ہیں ، ان کا خاتمہ کرنا چاہیے۔دوسری بات یہ کہ ان گروہوں کے لیے ریاست کی تزویراتی جمع تفریق میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک عسکریت پسندوں کے لیے مکانی گنجائشوں کے خاتمے کی بات ہے ، تو اس کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور داخلی سلامتی کی قومی پالیسی پر عملدرآمد کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔بعض اوقات چند فرقہ وارانہ اور عسکریت پسند گروہوں کا بدلتا رویہ ریاست کو جوابی طرزِ عمل کے حوالے سے مخمصے میں ڈال دیتا ہے ، بالخصوص اس وقت جب یہ گروہ ہمہ قسم تشدد سے مکمل ناطہ توڑنے کے بدلے قومی سیاسی دھارے میں شمولیت کی گنجائش کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان جماعتوں یا گروہوں کے رہنما اپنی دوسری اور تیسری درجے کی قیادت اور کارکنان کی اس حوالے سے کوئی ضمانت نہیں دے سکتے کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے گریز کریں گے یا پھر کسی اور متشدد گروہ یا جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کر لیں گے۔تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے تزویراتی شراکت دارچین سمیت تمام عالمی دنیا متشدد غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے زیادہ حساس ہو گئی ہے اور ان سے متعلق کسی بھی قسم کے نرم رویے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ ان عنا صر کو ترقی اور عالمگیریت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔عالمی معیشتیں بھی امن اور شراکت داری کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)جیسے غیرریاستی عالمی اداروں پر اعتماد کرتی ہیں۔ FATFایک عالمی ادارہ ہےجومنی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو وسائل کی فراہمی جیسے معامالات پر نظر رکھتا ہے۔

علاقائی سیاست اور سلامتی کے حوالے سے سامنے آنے والے نئے مسائل اور مشکلات، جن میں سے بیشتر غیر روایتی ہیں، یہ پاکستان کے لیے بھی غیر معمولی اور غیر روایتی جوابی لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت بڑھا دیتے ہیں ۔ جنوبی ایشیا اور دیگر ہمسایہ خطوں میں پراکسی جنگیں ان دنوں کوئی نیا عمل نہیں تھا، جب عالمی شراکت داروں کی مددو معاونت اور ان کے اعتماد کی بنا پر یہاں پراکسی عناصر کو تیار کیا جاتا تھا ۔ جنوب ایشائی خطہ اس حوالے سے بالخصوص پراکسی جنگوں کی ایک تاریخ رکھتا ہے اور خطے کے کئی ممالک اس طریقہ جنگ میں طاق ہوچکے ہیں ۔ اس سے وہ اپنے حریف ممالک کے حساس داخلی معاملات کو خراب کر کےان ممالک کے لیے مسائل بڑھانے کا کام لیتے ہیں ۔ تاہم اگر پراکسی جنگ طویل ہوجائے اور اس کے فوائد و نقصان جانچنے کی کوئی حکمت عملی موجود نہ ہو تو یہ روایتی اور باضابطہ جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے اور یہ خطہ اس طرح کے مظاہر کئی بار دیکھ چکا ہے ۔

پاکستان و بھارت، ہر دو ممالک کو چاہیے کہ وہ پراکسی جنگوں کی پرانی اور روایتی روش سے ہٹ کر تزویراتی حقیقت پسندی کی جانب بڑھیں تاکہ باہمی اختلافات و مسائل کے حل کے امکانات روشن ہوسکیں ۔ تزویراتی حقیقت پسندی کی بنیاد یہ ہے کہ ریاستی اختیار ایک حاکمانہ عامل کے طور پر غیر ریاستی عناصر یا افراد کی فعالیت کو محدود یا ختم کرسکے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اس پر رضامند ہوں ۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش دونوں ممالک کوتزویراتی حقیقت پسندی کے دائرے میں لانے کی ایک عمدہ کوشش تھی ،تاہم بھارت کے منفی جواب سے یہ کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی۔یہ رویہ بھارت کے مفاد میں قطعاً نہیں ہے بلکہ یہ رویہ بھارتی سماج میں پنپتے نرگسیت کے مجموعی احساس کے ہاتھوں دہلی قیادت کی یرغمالی کا موجب بنے گا۔

بھارت کی کمزور اور نظر انداز کی گئی اقلیتیں اس نرگسیت کا شکار بن رہی ہیں جیسا کہ کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف اکثریتی گروہ کے جوابی طرزِ عمل سے معلوم ہوتا ہے۔بھارتی نرگسیت کے اس زاویے سے پاکستان ایک ’’خطاکار‘‘ کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جو بھارتی اکثریت کے جذبات کومشتعل کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کشمیری اس کے ساتھ ہیں۔ نرگسیت کا یہ مجموعی احساس پرتشدد انتہا پسندی کی طرح خطرناک ہے۔پاکستان میں بھی یہ وبا موجود ہے جس کے مظاہر مختلف مذہبی و لسانی گروہوں کے مابین غیر مساوی تعلقات میں دکھائی دیتے ہیں۔تاہم بھارت میں یہ احساس قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے اور اس سے بنیاد پرستی کے آگے بند باندھنے کی پاکستانی کوششیں مشکلات کا شکار ہورہی ہیں، کیوں کہ بھارتی طرزِ عمل کے جواب میں پاکستان میں بھی ذرائع ابلاغ اور رائے ساز حلقوں میں ’’منہ توڑ جواب‘‘ پر زور بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمل اہم اور بنیادی مسائل کو حقیقت پسندانہ زاویے سے دیکھنے کے امکانات میں کمی کا باعث بھی بن رہا ہے۔

دونوں فریقین انسداد دہشت گردی کا ایک مشترکہ لائحہِ عمل (JATM) مرتب کر سکتے ہیں ، جو ایک مستقل اداراتی حیثیت سے کام کرے (ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن کی طرز پر)،جوطرفین کے وزرائے اعظم دفاتر سے منسلک ہو اور پاک بھارت رہنماؤں کے مابین بلاواسطہ تبادلہِ خیال کو ممکن بنائے۔

دونوں ممالک دو بار اس طرح کے مشترکہ لائحہِ عمل پر رضا مند ہو چکے ہیں۔ پہلی بار ہوانا میں سال 2006 کے دوران پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھااور بعد ازاں 2009 میں پاکستانی وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے درمیان بھی اس بات پر اتفاق ِ رائے ہوچکا ہے۔باوجود اس کے کہ یہ مشترکہ لائحہِ عمل اعتماد سازی کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرسکتا تھا اور اس کے ذریعے طرفین میں ہونے والی دہشت گرد اور نقصان دہ سرگرمیوں پر قاپو پانے کی راہ ہموار ہو سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ قدم بھی سیاست کاری کی نذر ہو گیا۔

ہم اس مسئلے کی داخلی جہات پر واپس آتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کو اپنی انسداد دہشت گردی حکمتِ عملی کے غیر حرکی پہلو، جو بنیاد پرستی کے خاتمے اور مصالحتی عمل سے متعلق ہیں، ان کے حوالے سے اپنے شراکت داروں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ترجیحی بنیادوں پر عسکریت پسندوں اور فرقہ پرستوں کی ذرائع ابلاغ اور عوامی دائروں سے بے دخلی کو یقینی بنائے، ان کے تشہیری و نظریاتی مواد پر مکمل پابندی عائد کرے، اور سائبر دنیا سے ان کی مکمل عدم موجودگی کی تدبیر کرے۔یہ تمام اقدامات انسداد عسکریت کی قومی پالیسی کا لازمی حصہ ہونے چاہییں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ وعدہ کررکھا ہے کہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں دہشت گرد گروہوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ یہ قابلِ تحسین ہے مگر عملی اقدامات کا متقاضی بھی۔ اس حوالے سے پہلے پہل توپارلیمان میں کالعدم تنظیموں کے مستقبل اور ان کی حیثیت سے متعلق بحث کا آغاز ہونا چاہیے۔اس کے لیے پارلیمان ایک اعلیٰ سطحی قومی کمیشن تشکیل دے سکتی ہے جو سچائی اور مصالحت پر کام کرے اور عسکریت پسندی کا باعث بننے والی حکمتِ عملیوں پر نظرِ ثانی اور عسکریت پسندانہ نظریات اور سرگرمیوں کو مکمل طور پر خیر باد کہنے والے لوگوں سے مصالحت جیسے معاملات زیرِ غور لائے۔ تاہم یہ کام پاکستان کی آئینی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔
پاکستان کو یہ اقدامات اپنی بھلائی کے پیشِ نظر اٹھانے چاہییں کیوں کہ عسکریت پسندی نے پاکستانی سماج کا حلیہ بگاڑدیا ہے اور عسکریت پسند گروہ ایک تزویراتی بوجھ کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوئے۔تمام عسکریت پسند گروہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنےکا رجحان رکھتے ہیں اور ان کی سرگرمیاں ملک کے لیے خطرناک حد تک نقصان دہ نتائج کی حامل ہوسکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے