ایران: صبح انقلاب سےشامِ امروز تک

ایران جیسی باوقار اور پرجوش ریاست 1979کے انقلاب کے بعدسے ایک معما بنی ہوئی ہے۔ اس نے اسلام کو جدید انتظامی وحکومتی ڈھانچے کے طور پر پیش کر کے دنیا کو ششدر کیا ۔ اپنےرجعت پسند نظریات کی برآمدگی کے لیے خطے میں بے چینی کا باعث بنا اور لبنان سے لے کر خلیج تک عسکریت پسند گروہوں کو نمو بخشی اور ان کی مددو معاونت کی۔ اس نے عالمی اقدار کی تحدی کرتے ہوئے مشرق و مغرب کے تمام ممالک کو بوکھلاہٹ کا شکار کیا۔سیاسی و ثقافتی گھٹن، دھمکی آمیز بیان بازی اور اپنے جوہری منصوبے سے متعلق ہٹ دھرمی جیسے ہم رو مسائل دہائیوں تک اسلامی جمہوریہ کے لیے مشکل بنے رہے۔ داخلی سیاست ہو، خارجہ پالیسی، معیشت یا پھر سماجی دائرے،ایران کےچار دہائیوں پر محیط انقلابی عمل کی ساخت اکثر و پیشترہردورکےمقتدرسیاسی گروہ کے ہاتھوں ترتیب پاتی رہی ہے۔ ایرانی انقلاب کم از کم پانچ ادوار سے گزرا ہے.

اولین دورآیت اللہ خمینی کا دور ہےجو1979سے 1989تک کاہے۔ یہ دور انتہا پسندانہ انقلابی اقدامات پر مشتمل ہنگامہ خیز دور ہے جس میں گذشتہ بادشاہی نظام کے حمایتیوں کو قتل کیا گیا، غیر ملکی افراد کو یرغمال بنایاگیااور تمام تر اسلامی دنیا میں شدت پسندی کو فروغ دیا گیا۔اس افرا تفری و ہنگامہ خیزی کو 8 سالہ طویل ایران عراق جنگ نے مہمیز دی جو موجودہ دور میں مشرقِ وسطیٰ کی سب سے زیادہ خون ریز جنگ ثابت ہوئی، جس میں دس لاکھ کے قریب افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ انقلاب کی اولین دہائی سے ہی عالمی دنیا میں بڑے پیمانے پر ایران کو ایک اچھوت ریاست کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔

دوسرا دوراکبر ہاشمی رفسنجانی کا ہے، اس دوران وہ دو بار سربراہِ مملکت منتخب ہوئے اور یہ 1989 سے 1997 تک کا دور ہے۔اس دور میں ابتدائی انقلابی جوش وجذبے کی جگہ عملیت پسندی نے لے لی تھی ۔ یہ عملیت پسندی مذہبی رہنماؤں کے جبری اقدامات ، جو ان کے خلاف الٹے پڑگئےتھے اور جنہوں نے عوام کو مشتعل اور برانگیختہ کردیا تھا، ان کے ضمیمے کے طور پر پیدا ہوئی تھی۔ رفسنجانی کی رہنمائی میں غرور اور ہٹ دھرمی قدامت پسندانہ حقیقت بینی میں بدل گئی۔ سیکولر نظمِ ریاست تیزی سےالٰہیانہ طرزِ حکومت پر حاوی ہونے لگا۔

تیسرا دور 1997 سے شروع ہو کر 2005 پر منتج ہوتا ہے۔ یہ زمانہ صدر محمد خاتمی کا اصلاح پسندانہ دور کہلاتا ہے۔صدر محمد خاتمی گذشتہ وزارتی کابینہ کے غیر معروف رکن رہے تھے، جنہیں پہلی بارسیاسی اکھاڑے میں اتارا گیا تھا۔اس دورمیں حکومت نے نہ صرف اپنے عوام بلکہ بیرونی دنیا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر کیے۔عارضی طور پر ایران نسبتاًآزاد ذرائع ابلاغ، آزادیِ اظہارکے مواقع میں اضافہ ، کھلے مکالمے کی فضا، سماجی پابندیوں میں آسانی اور ایک زرخیز اور متحرک سماج جیسی خوبیوں کا حامل ہو چکا تھا۔ تاہم پارلیمان ان اصلاحات کو قانوناً لاگو کرنے میں ناکام رہی تھی۔ خاتمی حکومت کے دوسرے دور کے اختتام تک مجلس خبرگانِ رہبری، جس کے سربراہ رہبرِ معظم تھےاور ایرانی مجلسِ شوریٰ، جس کے قائدایرانی صدر تھے، کے مابین گہری سیاسی تفریق پیدا ہو چکی تھی۔

بعد از انقلاب چوتھا دور 2005 سے 2013 تک کا ہے اور اس دوران ایران کے صدر محمود احمدی نژاد رہے۔ محمود احمدی نژاد تہران کے مئیر تھے اور وہ اس قدر معروف نہیں رہے تھے، تاہم انہوں نے ہاشمی رفسنجانی کے مقابلے میں2005کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ سخت گیر نظریات کے حامل گروہ کا ظہور تین بڑی تبدیلیوں کی عکاسی کررہا تھا، سیاسی عمل سے بیزاری اور بداعتمادی نے نوجوانوں اور خواتین کی بڑئی تعداد کو انتخابات کے بائیکاٹ کی طرف مائل کیا۔ مذہبی رہنماؤں، بالخصوص رفسنجانی کے خلاف بددیانتی اورایک ربع صدی گزرجانے کے باوجود اوسط ایرانی فرد کے معیارِ زندگی میں بہتری میں ناکامی کے باعث عوامی غم و غصہ بڑھ گیا تھا۔ انقلابیوں کی دوسری نسل بالخصوص عام آدمی، جس نے ایران عراق جنگ کا کٹھن تجربہ کیا تھا، وہ بادشاہت کے خاتمے میں کردار ادا کرنے والے ملاؤں کے خلاف آواز بلند کرنا شروع ہو گئی تھی۔

انقلابِ ایران کا پانچواں دور 2013سے شروع ہوتا ہے جب ایک مذہبی رہنما اور سابق مشیر برائے قومی سلامتی حسن روحانی صدر منتخب ہوئے۔انہوں نےمعاشی تنزلی کے خاتمے اور ایران کے جوہری منصوبے سے متعلق منفی عالمی تاثر کے مسئلےکو حل کرنے کے وعدے کی بنیاد پر”امید و تدبیر” کا نعرہ لگایا اور چھ صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں کامیابی حاصل کی۔حسن روحانی داخلی و خارجی پالیسی سازی کے عمل میں حقیقت بینوں اور اعتدال پسندوں کے ظہور کا استعارہ بنے۔اپنے پہلےصدارتی دور میں انہوں نے سالہا سال کی معاشی بد انتظامی کے خاتمے کے لیے کام کیا اور شرح افراطِ زر کو 40فیصد سے گھٹا کر 10فیصد سے بھی کم تک لے آئے۔

اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران چھ بڑی عالمی طاقتوں ، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے ساتھ ایران کے متنازعہ جوہری منصوبےپرعالمی معاہدے تک پہنچنا حسن روحانی کی نمایاں ترین کامیابی تھی۔اس معاہدے میں ایران نے اپنے اوپر عائد پابندیوں میں تخفیف کے بدلے جوہری ذخائر کو تلف کرنے، افزودگی میں کمی لانے اور اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کے کے لیے اپنی جوہری تنصیبات کھولنے کی یقین دہانی کروائی ۔2015 میں ہونے والا معاہدہ، جسے جامع مشترکہ لائحہِ عمل (Joint Comprehensive Plan of Action) کا نام دیا گیا تھا، معاشی فوائد کے حصول میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرپایا ۔2017 میں حسن روحانی 57فیصد ووٹ لے کردوسری بار منصبِ صدارت کے لیے منتخب ہوئے۔ مئی 2018 میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے دستبرداری نے حسن روحانی کے ان اقدامات کو بے ثمر کردیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے