تہذیبی و سیاسی انتشار

سپین قبل ازوقت عام انتخابات کی تیاری کر رہا ہے‘ جو ملک کے لئے ایک نیا باب ہوگا۔28 اپریل کو ووٹ کے ذریعے اورطویل اتحادی مذاکرات کے نتیجے میںایک ہنگ پارلیمنٹ کاامکان ظاہرکیا جارہا ہے ۔سیاسی پارٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوئیں‘یہ عمل اس عشرے کے آغاز سے شروع ہوا۔ دونوں جماعتوں پیپلزپارٹی اور سوشلسٹ نے گزشتہ 40 سال کے دوران ملک پر غلبہ کھو دیا ہے‘ اپریل کے انتخابات میںکچھ نیا دیکھنے کو ملے گا۔وہ ابھرتی ہوئی قوم پرست نئی سیاسی جماعت ”ووکس‘‘ کی صورت میںہوسکتا ہے۔ 2016 ء کے عام انتخابات سے اس کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ اس نے 0.2 فی صد ووٹ حاصل کیے۔ یہ جماعت پہلی بارہسپانوی مرکزی پارلیمان میں داخل ہوسکتی ہے۔

عالمی مالیاتی بحران‘ معاشی عدم مساوات‘ امیگریشن اور‘اقتصادی و ثقافتی جیسے دیگر بڑھتے ہوئے مسائل کے خدشات کے با وجود ‘قوم پرست سیاسی جماعتوں نے گزشتہ ایک دہائی میں یورپ کے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔

کچھ معاملات طے کرتے ہوئے حکومتی اتحایوں میںشامل ہو گئے۔سپین کے متعلق کچھ نہیں کہاجا سکتا ۔یورپی پڑوسیوں کی طرح سپین کو بھی قوم پرستی میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا‘لیکن یہ عمل ایک نئے انداز میںسپین کو الگ کر رہا ہے۔

دسمبر 2018ء میں ”ووکس‘‘ پہلی دائیں بازو کی پارٹی بن گئی‘ جو تین دہائیوں سے سپین کے علاقائی پارلیمان میں داخل ہوئی۔ جب اس نے جنوبی علاقے اندلس میں 11 فیصد ووٹوں حاصل کیے۔ ”ووکس‘‘ نے پیپلز پارٹی اور صدارتی ”کیودادنوس ‘‘ (سیاسی پارٹی کا نام)کی مدد کی‘ جس سے حکومت کا قیام عمل میں آیا اور اس علاقے میں سوشلسٹ حکمرانی کادورجو کئی عشروںسے چلا آرہا تھا ‘ختم ہو گیا۔دوبارہ فروری میں‘ ووکس نے ” میڈریڈ‘‘ میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں پیپلز پارٹی اورکیودادنوس کا ساتھ دیا‘ اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پارٹی نے سپین کے اہم قدامت پرست رویہ کے سبب ایک مخصوص نشست حاصل کی ہے۔ موجودہ رائے دہندگان نے ووکس کی قومی مقبولیت کو تقریباً 10 فی صد پر ڈال دیا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ یہ اعدادوشمار پارلیمنٹ میں‘ عام انتخابات کے بعد اتحادی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے کافی ہے ۔ووکس کی مقبولیت میں اچانک اضافہ بنیادی طور پر سپین کے خود مختار علاقوں میں سے ایک کیٹلاٹیو Catalatio میں آزادی تحریک کے رد عمل کانتیجہ ہے۔کیلاٹنین علیحدگی پسند گزشتہ عشرے کے دوران سرگرم رہے ‘ بارسلونا اور دیگر شہروں میں بڑے مظاہرے کرتے رہے ۔ قانونی طور پر پابندیوں کے باوجود‘انہیں ” آزادی ریفرنڈم‘‘ کا مطالبہ کرتے دیکھا گیا‘جب علاقائی حکومت نے غیر قانونی خود مختار ریفرنڈم کو منعقد کیا اور اس کے بعد آزادی کا اعلان ہوا تواکتوبر 2017 میں‘ کیٹلونیا کی علیحدگی پسند تنظیمیں ایڑی چوٹی کا زورلگانے لگیں‘تاہم میڈرڈ نے اس ریفرنڈم کو مسترد کرتے ہوئے خطے پر عارضی کنٹرول حاصل کرلیا۔

گزشتہ حالات و واقعات سے دو نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔سب سے پہلے‘ کیٹلونیا کی آزادی کی جماعتوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دیا‘تاکہ ایک جمہوریہ کی تعمیر کرنے کے منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھا جاسکے اورپچھلی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے‘سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ملک کو توڑ نے کی کوششیں کیںاورپھر ملک سے بھاگ گئے۔اب علیحدگی پسند خطے پر حکومت کرتے ہیں‘ لیکن وہ داخلی طور پر تقسیم ہوتے ہیں۔دوسرا نتیجہ یہ کہ ووکس کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی‘پارٹی غیر قانونی تارکین وطن کے خاتمے کے ساتھ ‘دیگر یونینزکے ممالک سے قوم پرست قوتوں کا گٹھ جوڑ چاہتی ہے۔ یورپ کی بیرونی سرحدوں کے لئے زیادہ تحفظ کی حمایت کرتی ہے اوراس نے ہمیشہ یورپی federalization (وفاقیت) کے عمل کو اہمیت دی ہے(آخری پلیٹ فارم کا مطلب ہے کہ ووکس سمیت ایک ہسپانوی حکومت یقینی طور پر برسلز کوپریشان کرے گی‘ کیونکہ میڈرڈ نے روایتی طور پر یورپی یونین کے انضمام کی حمایت کی ہے)‘لیکن ووکس کی بنیادی توجہ ہسپانوی ریاست میڈرڈ کے علاقوںکو صحت‘ پولیس اور لا ء اینڈ آرڈکی صورتحال کوصحیح کرنے پہ لگی ہے۔

ووکس کی مقبولیت سپین کی اہم جماعتوں کو ایک نئے سیاسی ماحول سے نمٹنے کے لئے مجبور کر رہی ہے۔پیپلز پارٹی ووکس کو قدامت پسند سیاسی پارٹی کے طورپر دیکھ رہی ہے‘ جوانتخابات میں اس کے لیے سب سے بڑاخطرہ ہے ‘ جو کیو ڈ و ڈ ا نو س اورکیٹلونیا Catalonia میں پیدا ہوا تھا‘ جس کی وجہ مقبولیت قوم پرستی بنی ‘ جو ماضی میں ان کی علاقائی سطح پر حلیف رہی‘ مگر اب سب سے بڑا حریف بنی ہوئی ہے۔نتیجے کے طور پر‘ دونوں نے کیٹلونیاپر اپنی پوزیشن کو سخت کر دیا ہے‘ یہاں تک کہ وہ عام انتخابات جیتنے کے لئے خطے کے براہ راست کنٹرول کے دعوے بھی کرتے ہیں۔اس وقت سوشلسٹ اور بائیں بازو پوڈیمز‘ کٹلری علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت میں لگے ہیں اور درمیانی ووٹروں کو متوجہ کرنے کی امید رکھتے ہیں۔یہ ایک مشکل کام بھی ہے‘ کیونکہ ماضی میں باہر جانے والے ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سنچیز نے کسٹم علیحدگی پسندوں کو مذاکرات اور خطے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے وعدوں کے ذریعے اپنانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن ریاستی آزادی کے ووٹرز نے اپنے بجٹ کے بل کے خلاف بھی ووٹ ڈال کر سب کو حیران کر دیا تھا۔منقسم سیاسی ماحول میں ایسے ہی نتائج آیا کرتے ہیں۔

سپین کی موجودہ ترقی‘ ثقافتی‘ سیاسی اور اقتصادی تقسیم کے حصول کے ساتھ طویل اور پیچیدہ تعلقات میں پنہاں ہے۔”ابربیان جزائر‘‘میں سے ایک پہاڑی علاقہ ہے‘ جو کثیر آبادی والا ملک ہے‘جس نے صدیوں میں‘ اپنی ثقافت اور زبانوں کورائج کیا ۔ تاریخ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ سیاسی‘ اقتصادی اور دانشورانہ گروہوں کی طرف سے کی گئی کوششوںکے باعث ایک ”قوم‘‘ پیدا ہوئی اور اسے روایتی طور پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاریخ یہ وضاحت بھی کرتی ہے کہ ہسپانوی قوم پرستی ‘ملک کے مرکز میں کیوں مضبوط ہے ‘لیکن اجنبی میں کمزور ہے‘ جہاں وہ دوسری قومی شناخت اور داستانوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ہسپانوی قوم پرستوں کو ہسپانوی قوم کی پیدائش کے طور پر 15ویںصدی کے آخر میں کاسٹائل اور ارجن کے بادشاہوں کے درمیان یونین کی شناخت کراتے دیکھا گیا ‘لیکن وحدت پسند یونین نے ایسی ریاست بنا دیا‘ جس نے” ابربیان جزائر‘‘ میں سے اکثر کا احاطہ کیا‘ اس نے لفظ کے جدید معنی میں ایک قوم نہیں بنایا۔

ایک عام ہسپانوی شناخت قائم کرنے کے لئے تھوڑا آگے بڑھیںتو 19 ویں صدی میں‘ یورپ کے دیگر حصوں میں بڑے پیمانے پر کوششیں کی گئیں‘ہسپانوی رہنماؤں نے قانون سازی ‘تعلیم کا نفاذ ‘ قومی علامات‘ یادگاروں ‘ سیاسی ‘نظریاتی ‘تہذیبی وثقافتی ‘ہسپانوی مقامی موسیقی اور ادب کو فروغ دیا۔منتخب تہذیبی اور نظریاتی انتشار میں یکجہتی کے عناصرپروان چڑھتے ہیں۔(جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے