انڈین فلمیں، ہمارا مزاج اور بھارتی حملہ

ایک عرصہ ہوا میں نے انڈیا کی فلمیں دیکھنا چھوڑ دی تھیں۔ حقائق سے دور، جذباتیات اور سطحی پن سے بھرپور اور مبالغے میں لتھڑے ہوئے ان ڈراموں کی نسبت ہالی وڈ فلموں کا میعار بہت بلند ہے۔ ان میں موضوعات کا تنوع بھی موجود ہے، زندگی کے مختلف پہلوؤں کا گہرا تجزیہ بھی پایا جاتا ہے اور مختلف معاملات پر نئے زاویوں سے روشنی ڈالنا ان فلموں کا خاصہ ہے۔

برصغیر کا مجموعی مزاج بھی بالی وڈ فلموں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں انسانوں کی فرشتوں اور شیطانوں میں تقسیم، اپنے ہیروز سے محیر العقول کارناموں کی توقع اور ولن کے بارے میں بدترین انجام کی تمنا ہر دل میں موجزن رہتی ہے۔

بھارتی طیاروں کے پاکستان میں گھس آنے کے بعد جس طرح بھارتی میڈیا نے جشن کا سماں باندھا ہوا ہے، وہ بہت ہی مضحکہ خیز ہے لیکن برصغیر کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ "بارہ جانبازوں نے دشمن کے علاقے میں گھس کر تباہی پھیلا دی اور ساڑھے تین سو دہشتگرد مار ڈالے” اس سے زیادہ بالی وڈ فلموں جیسا منظر اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہر بھارتی ایسی خبر سننے کو بےتاب تھا اور جونہی ان کے کانوں میں فتح کی منادی پہنچی، اس نے اس پر فوراً یقین کر لیا۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دی جانے لگی اور مٹھائیاں تقسیم ہونے لگیں۔

اس موقع پر پاکستان کے لوگوں کا ردعمل مختلف رہا۔ خود سے نفرت میں مبتلا ایک طبقے کے لیے تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا جیسی صورتحال پیدا ہو گئی اور وہ بہانے بہانے پاکستان کو ہی کوسنے لگے۔ یہ ایسا بزدل طبقہ ہے جس کے خیال میں بھارت کا طفیلی بن کر رہنے میں ہی پاکستان کی عافیت ہے۔ اپنے وطن سے باوقار اظہار محبت کرنے والوں کے لیے طنزیہ الفاظ ان کے گلے میں چھچھوندر کی طرح اٹکے رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی یہ گندگی باہر انڈیلتے لگتے ہیں۔

ایک اور طبقہ ان مذہبی لوگوں پر مشتمل ہے جو ایک طویل عمر فوج کی گود میں بیٹھ کر اپنی سیاسی زندگی کو طوالت بخشتے رہے۔ نائن الیون کے بعد جب پاک فوج نے دھیرے دھیرے انہیں خود سے دور کیا تو یہ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ جس فوج کے سیاسی کردار پر یہ لوگ تنقید کرتے رہتے ہیں یہ خود اسی سے فوائد اٹھاتے رہے اور آج بھی خاکیوں کی سیاسی اترن سے اپنے بدنما بدن کو ڈھانپنے کی تمنا رہ رہ کر انہیں ڈستی رہتی ہے۔

ایک اور طبقہ دانشوراں ایسا ہے جن کے اعضائے رئیسہ وہ وظیفہ سرانجام نہیں دیتے جو قدرت کا منشا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پیٹ سے سوچتے ہیں اور منہ سے گندگی اگلتے رہتے ہیں۔ پیسے کی ہوس میں مبتلا یہ لوگ سب سے زیادہ قابل رحم حالت میں مبتلا ہیں۔ کبھی انہیں عمران خان کی شکل میں باجوہ بولتا نظر آتا ہے تو کبھی ان کے سراب زدہ ذہن میں نواز شریف ایک درہ ہاتھ میں پکڑے پاک فوج کے افسروں کو ہانک رہا ہے۔ جب ان کی فریب خوردہ آنکھ کھلتی ہے تو میاں صاحب جیل میں اور فوجی افسر اپنے عالیشان بنگلوں میں دکھائی دیتے ہیں اور یہ ایک بار پھر اول فول بکنا شروع ہو جاتے ہیں۔

پاکستانیوں کی ایک قسم بالی وڈ مینٹیلٹی رکھنے والی بھی ہے جس کے خیال میں پاکستانی طیاروں کو بھارتی فضائیہ کے تعاقب میں دلی تک چلے جانا چاہیئے تھا اور ایک آدھ بم لال قلعے پر پھینک دینا چاہیئے تھا۔ یہ بھی قابل رحم لوگ ہیں اور انہی کہ وجہ سے برصغیر میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ بھارت ایسے جنونیوں سے بھرا پڑا ہے جبکہ ہمارے ہاں ان کی تعداد بہت کم ہے۔

پاکستان کے حقیقی وارث دو طبقے ہیں۔ ایک وہ جو باوقار انداز میں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ دیر سے حرکت میں کیوں آئی؟ ان کے لہجے میں طنز نہیں بلکہ دکھ ہے۔۔ ایسا دکھ جو پاکستان کی محبت سے جنم لیتا ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی سماج کے لیے ایک نعمت ہوتے ہیں کیونکہ ان کی محبت بھری تنقید اصلاح کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے خیال میں یہ وقت سوال پوچھنے کا نہیں بلکہ فوج اور حکومت کا مورال بلند کرنے کا ہے۔ انہیں پیار بھری تھپکی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دیگر طبقوں کے دباؤ میں آ کر کوئی ایسا فیصلہ نہ کر بیٹھیں جس کے نتیجے میں یہ خطہ کسی بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ جائے۔

میرا تعلق اس طبقے سے ہے جو اس وقت پاکستانی حکومت اور فوج کو مکمل سپورٹ دینے کا حامی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو جذبہ آج قومی اسمبلی میں دکھائی دیا ہے وہ جذبہ پوری قوم میں موجود ہونا چاہیئے تاکہ حکمران بغیر دباؤ کے کوئی ایسا فیصلہ کریں جس سے جنگ کے شعلے بھی نہ بھڑکیں اور بھارت کو بھی اس سے تکلیف پہنچے۔

اس وقت سفارتی محاذ پر سرگرمی تیز کرنے اور انٹرنیشنل میڈیا کو فوری طور پر اس علاقے کا دورہ کرانے کی ضرورت ہے جہاں بھارتی طیارے اپنا اضافی بوجھ پھینک کر بھاگے ہیں۔ بھارت کے جھوٹ کا پردہ چاک ہو گا تو اس سے بڑا زخم ان کے لیے اور نہیں ہو سکتا۔ کامیابی کے نشے میں سرشار بھارتی قوم میں شکوک پیدا کرنا ہمارا ہدف ہونا چاہیئے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو مودی کو آنے والے انتخابات میں بہت بڑا نقصان پہنچے گا اور یہ ہماری سب سے بڑی فتح ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے