تحمل سے ہی کام لینا چاہیے!

ہندوستانی ہوائی جہازوں نے بالا کوٹ کی ایک پہاڑی پہ بم گرائے۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ پہاڑی ویران علاقے میں ہے۔ لیکن پھر بھی بالا کوٹ مانسہرہ کاحصہ ہے اور مانسہرہ کے پی کے میں واقع ہے۔ یعنی جس نوعیت کا بھی سہی حملہ تو پاکستانی سرزمین پہ ہندوستان کی طرف سے ہوا ہے۔

ہمارا جواب کیا ہونا چاہیے؟ ایک بات واضح ہے کہ ہندوستان نے حملہ تو کیا لیکن کسی فوجی ٹارگٹ کو نشانہ نہیں بنایا۔ ایسا ہندوستان کرتا تو پھر ہمیں بھی جوابی کارروائی کرنی پڑتی اور اُس کے بعد کیا ہوتا‘ وہ کہنا آسان نہیں۔ یہ عام محاورہ ہے کہ جنگ چھیڑنی آسان ہوتی ہے‘ لیکن اِس کے نتائج کیا ہوں گے اور یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا‘ یہ بھانپنا آسان نہیں۔ کسی فوجی ٹارگٹ کو نشانہ نہ بنانے سے ہندوستان نے اپنے لیے بھی راستہ رکھا ہے‘ اور ہمیں بھی عذر ملتا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی جواب اعتدال کے دائرے سے باہر نہ جائے۔ یہیں معاملہ رُک جاتا ہے تو فریقین کے لئے بہتر ہے۔ ہندوستان کہہ سکتا ہے کہ اُس نے پلوامہ کا جواب دے دیا‘ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ہندوستانی طیاروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

کچھ اور ردِ عمل دکھایا جائے تو صورتحال آسانی سے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ یہ ہمارے فائدے کی بات نہ ہو گی۔ ضرورت کی جنگ تو لڑنی پڑتی ہے‘ لیکن خواہ مخواہ کی جنگ کا متحمل بڑے سے بڑا ملک بھی نہیں ہو سکتا۔ امریکا دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے لیکن عراق پہ حملہ کر کے اُس نے اپنا بے پناہ نقصان کیا۔ جب جنگی جنون بڑھایا جا رہا تھا تو وہاں کے سرکردہ لیڈران اور میڈیا بھی عراق پر حملے کے حق میں تھے۔ اَب یہ بات مانی جا رہی ہے کہ یہ بہت بڑا بلنڈر تھا۔ امریکا کو حاصل کچھ نہیں ہوا لیکن اسے نقصان بہت اُٹھانا پڑا۔ ویت نام جنگ کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ غلط مفروضوں پہ وہ جنگ لڑی گئی اور فتح کیا حاصل کرنی تھی‘ امریکی معاشرہ خود ہل کے رہ گیا۔ روس نے ایسی ہی غلطی افغانستان میں کی اور کمال کی بات ہے کہ روس کی غلطی اُسی سرزمین پہ پھر امریکا نے دہرائی اور ایسی جنگ شروع کی جو امریکی تاریخ میں طویل ترین ہے اور اَبھی تک ختم نہیں ہوئی۔

یہ تو بڑے ملکوں کی بات ہے‘ لیکن 1965ء میں ہم سے بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں خفیہ کارروائی کا آغاز اس مفروضے کی بنیاد پہ کیا گیا تھا کہ جب ہمارے کمانڈو وہاں جائیں گے تو کشمیری ہندوستان کے خلاف بغاوت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ کشمیری بغاوت کیا ہونی تھی، انڈیا نے بین الاقوامی بارڈر کراس کیا اور دونوں ملکوں میں باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان اچھا بھلا ترقی کے سفر پہ گامزن تھا‘ لیکن 1965ء کی جنگ نے بہت ساری چیزوں کا ستیا ناس کر دیا۔ ترقی سے ہٹ کر ہم دفاعی تیاریوں میں لگ گئے۔ فوج بڑھانی پڑی اور پھر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نفرتوں کی دیواریں اُونچی ہوتی گئیں۔

پاکستان میں وسیع حلقے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجودہ کیفیت 1947ء کی پیدا کردہ نہیں‘ یہ 1965ء کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ تقسیم ہند کے باوجود 1947ء کے بعد ایک نہ ایک حد تک کشیدگی تو تھی‘ لیکن معمول کا کاروبار بھی چل رہا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ اگر موجود تھا تو اُس پہ بات چیت بھی ہوتی تھی۔ 1947ء کے بعد شروع کے سالوں میں کئی ایک موقعے پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نئی دہلی پاکستانی سفارت خانے آئے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفر اِتنا مشکل نہ تھا۔

یہ تمام صورتحال 1965ء کی جنگ نے ختم کر دی۔ آج حالت یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین سرحد دنیا کی کشیدہ ترین سرحد ہے۔ پورے بین الاقوامی بارڈر میں ایک ہی آنے جانے کا راستہ ہے، یعنی واہگہ اٹاری کراسنگ۔ دوسرا ہم کہہ سکتے ہیں‘ سری نگر مظفر آباد روڈ لنک ہے۔ شمالی اور جنوبی کوریا میں تعلقات بہتر ہو رہے ہیں‘ اِس کے باوجود کہ کورین جنگ اِس شدت سے لڑی گئی جس کا ہم ہندوستان اور پاکستان والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور تو اور صرف چین کے ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ فوجی اُس جنگ میں مارے گئے تھے۔ وہ جنگ تین سال تک لڑی جاتی رہی جبکہ ہندوستان اور پاکستان کا جنگ لڑنے کا حوصلہ سترہ دن سے زیادہ نہیں رہا۔

ہمارے ماہرین نے بھی ہمیں پاگل بنایا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں نیوکلیئر ہتھیاروں کی بات ایسے کی جاتی ہے جیسے یہ کوئی گُلی ڈنڈے کا کھیل ہو۔ نیوکلیئر ہتھیار دفاع کے ایک تصور کیلئے ہوتے ہیں۔ اِس تصور کو انگریزی میں ڈیٹیرنس (deterrence) کہتے ہیں۔ یعنی یہ کسی ایڈونچر کو روکنے کے لئے ہوتے ہیں۔ نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کی چیز نہیں۔

یہ بات پاکستانی ذہنوں میں کیوں نہیں اُترتی؟ نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کا مطلب مکمل تباہی ہے۔ چھوٹا سا نیوکلیئر ہتھیار بھی ایک دفعہ استعمال ہو تو جواب دَر جواب کا سلسلہ استعمال کرنے والے ملکوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا کے رکھ دے۔ لیکن ہمارے ماہرین ایسی لا یعنی باتیں کرتے ہیں کہ ہندوستان نے فوجی حملہ کیا تو ہم چھوٹے نیوکلیئر ہتھیار استعمال کریں گے۔ کس احمقوں کی دنیا میں یہ نام نہاد ماہرین رہتے ہیں؟ نیوکلیئر جنگ کبھی لڑی نہیں گئی۔ اگر کبھی لڑی گئی تو اِسے کنٹرول کرنا نا ممکن ہو گا۔ لیکن ہمارے ماہرین نیوکلیئر جنگ کا ایسے ذِکر کرتے ہیں جیسے وہ شطرنج کے بورڈ پہ بیٹھے ہوں۔

دوسری بات نام نہاد جہادی تنظیموں کی ہے۔ اِس بیماری سے ہم چھٹکارا کیوں نہیں حاصل کرتے؟ یہ چالیس سال پرانا مسئلہ ہے لیکن کسی نہ کسی صورت میں اَب تک ہمارے گلے پڑا ہوا ہے۔ اس سارے سلسلے سے ہم نے بہت نقصان اُٹھایا لیکن جو سبق حاصل کرنے چاہئیں ہماری ذہنی دسترس سے اَب تک دور ہیں۔ یہ کون سی ذہنی کنفیوژن ہے جو یہ کہنے پہ مجبور کرتی ہے کہ فلاں تنظیمیں تو نقصان دہ ہیں اور فلاں ہمارے فائدے کی؟ یہ اپروچ غلط ہے۔ اگر کوئی وجہ تھی بھی کہ ہم نے یہ راستہ اپنایا تو اَب وہ وجہ نہیں رہی۔

اِن باتوں سے نکلیں۔ آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ترقی کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے رہ گئے۔ ہمارے سوچنے کے انداز پرانے ہیں۔ ذہنی طور پہ ہم ایک پیچھے رہنے والی قوم ہیں۔ نصاب میں تبدیلی ہم لا نہیں سکتے۔ تعلیمی سیکٹر کو ماڈرن بنیادوں پہ استوار نہیں کر سکتے۔ ریسرچ اور تحقیق نام کی چیزیں اِس ملک میں نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تعلیم کا میدان مذاق بنا ہوا ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم کی باتیں کبھی کبھار ہوتی ہیں۔ اِس بارے ہم کر کچھ نہیں سکتے۔ پھر نیا پاکستان آسمانوں پہ تیار ہوکے نیچے آئے گا؟

اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں معرض وجود میں آیا تو اُس نے اپنے وجود کا جواز اپنی ترقی سے دیا۔ مشرق وسطیٰ میں تیل کی دولت اوروں کے پاس ہے لیکن ترقی کا راز اسرائیل نے پایا۔ آج وہ خطے میں سب سے آگے بڑھنے والا ملک ہے۔ تقسیم ہند کی بدولت پاکستان ایک نئی حقیقت کے طور پہ سامنے آیا۔ ہمارے وجود کا جواز بھی ہماری ترقی کی شکل میں آنا چاہیے تھا۔ ہم ہندوستان سے ہر شعبے میں آگے ہوتے‘ پھر تو کوئی بات تھی۔ ہندوستان والے ہمیں رشک کی آنکھ سے دیکھتے۔ لیکن ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ اب بھی وقت ہے بدلنے کا لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب فرسودہ خیالات کے چنگل سے پاکستانی قوم اپنے آپ کو آزاد کرا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے