مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ شہر میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں ہر بیماری کا شرطیہ علاج کیا جاتا ہے اور ہر غم کو خوشی میں تبدیل کرنے کی گارنٹی دی جاتی ہے۔ میرے ایک دوست نے اس جگہ کے بارے میں بتایا جو وہاں سے ہوکر آیا تھا۔ یہ جگہ ایک حکیم صاحب چلاتے ہیں جو فل ٹائم پیر بھی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس دنیا کی ہر بیماری کا علاج ہے، ہر مسئلے کا حل ہے اور ہر پریشانی کو وہ اپنے عملیات کے زور سے دور کر سکتے ہیں۔ ان کے مطب نما ڈیرے پر لوگوں کا رش لگا رہتا ہے، لوگ دھڑا دھڑ ان کی کمپنی کی تیار کردہ ادویات خریدتے ہیں، ان کے رسالے میں شائع ہونے والے وظائف استعمال کرتے ہیں اور بیماری کے لیے ان کے مجرب نسخوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ انگریزی اور اردو زبان میں ان کی ایک شاندار ویب سائٹ ہے جس پر انہوں نے اپنا مکمل تعارف دیا ہے جس کے مطابق ان کا شجرہ نسب اولیا اللہ سے جا ملتاہے، سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ ان کا ’’پیچھا کرتے‘‘ ہیں(ویسے یہاں فالو کرنے کا درست ترجمہ پیروی کرنا ہوگا)، ان کے کتابی چہرے (Facebook) کا صفحہ بھی ہے اور شوشے چھوڑنے، چہکارنے کا کھاتہ (ٹویٹراکائونٹ) بھی۔
پیر صاحب کے پاس نہ صرف وظائف اور عملیات کا خزانہ ہے بلکہ دیسی اور یونانی نسخوں کے ذریعے وہ دنیا کی پیچیدہ سے پیچیدہ بیماری کا علاج کرنے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں، اس کے علاوہ وہ جادو ٹونے کا توڑ بھی جانتے ہیں، آپ ان کی کمپنی سے ریڈی میڈ جادو توڑ پانی خرید سکتے ہیں، دم کی ہوئی چیزیں خرید سکتے ہیں جن کے استعمال سے آپ کے کاروبار میں برکت آجائے گی،،گھر میں دولت آجائے گی، من پسند پوسٹنگ ہوجائے گی، اولاد تابع فرمان ہوجائے گی، محبوب قدموں میں گر کر لوٹ پوٹ ہوجائے گا، دفتر میں باس راضی ہوجائے گا، بندش ختم ہوجائے گی ، کام میں جی لگ جائے گا، سستی ختم ہوجائے اور آپ ایک آئیڈیل شخص کی طرح روزانہ صبح پانچ بجے بستر سے چھلانگ لگا کر اٹھا کریںگے۔
آپ میں سے جن لوگوں کا خیال ہے کہ میں ان حکیم نما پیر صاحب کا قائل ہوکر یہ کالم لکھ رہا ہوں اور وہ مجھ سے ان کا پتہ دریافت کرکے اپنے دکھوں کا علاج کروانے ان کے پاس جائیں گے، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے صرف ان کے دعوئوں کی تفصیل لکھی ہے، کسی بات کی تصدیق نہیں کی اور تصدیق کبھی ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ پیر صاحب سمیت ہم سب لوگ انسان ہیں، ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ہم فوراً اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً سر میں درد ہو تو فٹ سے دو گولیاں کھا لیتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ آرام آجائے گا، نظر کمزور ہوتی ہے تو عینک لگوا لیتے ہیں کیونکہ سو فیصد گارنٹی ہے کہ عینک کے ذریعے صاف نظر آئے گا، دل کی شریان بند ہوجائے تو کسی ماہر سرجن سے دل کا بائی پاس آپریشن کرواتے ہیں کیونکہ جان بچانے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے جس دن کسی پیر کے بچے کے دل میں سوراخ ہوا اور وہ اسے ڈاکٹر مسعود صادق کے پاس آپریشن کے لیے لے جانے کی بجائے اپنے عملیات اور وظائف یا کسی نسخے اور ٹوٹکے سے ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوگیا اس دن میں دنیا کے تمام پیروں، فقیروں، عاملوں
اور ہر قسم کے بابوں کا قائل ہوکر ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا اور جس دن کسی بابے نے نظر کمزور ہونے کی صورت میں عینک لگوانے کی بجائے اپنی آنکھوں پر اپنا ہی دم کیا ہوا پانی پھونکا اور اس کی نظر سکس بائی سکس ہوگئی، اس دن میں ان بابا جی کی مریدی میں آجاؤں گا، مگر ایسا قیامت تک نہیں ہوگا، کیونکہ اگر اس کا ایک فیصد بھی امکان ہوتا تو یہ پیر بابے کبھی عینک نہ لگاتے، کبھی اپنا کوئی آپریشن نہ کرواتے، کبھی کفار کی ایجاد کی ہوئی کوئی شے استعمال نہ کرتے، مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ خود سر سے پیر تک کفار کی ایجادات، دوائیوں اور طبی مشینوں سے اپنی بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں اور ہم ایسوں کوتعویذ گنڈے دے کر کہتے ہیں کہ خدا نے چاہا تو آرام آجائے گا۔ گویا اگر آرام نہ آیا تو نعوذ باللہ یہ بات خدا سے پوچھیں، ان بابوں سے سوال نہ کریں۔
ان تمام باتوں کے باوجود میں نے تھوڑی دیر کے لیے دل میں سوچا کہ ان پیر صاحب سے ملاقات تو کرکے دیکھا جائے مگر پھر ارادہ بدل دیا کیونکہ کچھ تحقیق کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ شہر میں ایسی کئی کمپنیاں ہیں جو اس قسم کا سودا بیچ رہی ہیں۔ ایسے sole proprietor پیر بھی ہیں جو گھر پر جاکر دم کرنے کی سروس فراہم کرتے ہیں، ان کے بقول یہ دافع بلیات و شریات کے لیے ہوتاہے، کچھ کاروباری حضرات انہیں ماہانہ بنیادوں پر فیس دے کر اپنی فیکٹریوں اور کارخانوں پر دم کرواتے ہیں تاکہ مشینیں کسی ان دیکھی خرابی کی وجہ سے بند نہ ہوجائیں، مزدور ہڑتال پر نہ چلے جائیں اور منافع میں کمی نہ ہوجائے! ان عاملوں کے پاس کئی کارپوریٹ کلائنٹس ہیں، عملیات کے عوض انہیں لاکھوں روپے فیس ادا کی جاتی ہے ، اس کے علاوہ سیاستدان، بیوروکریٹ اور دیگر اداروں کے افسران بھی گاہے گاہے ان کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں، کبھی چہرے پر پھونکیں مرواتے ہیں، کبھی دم کرواتے ہیں اور کبھی ان دیکھے وسوسوں کا حل پوچھتے ہیں ۔
سو جس معاشرے میں اشرافیہ کا یہ حال ہو اس معاشرے کے بے بس، لاچار اور بدنصیب عوام کا کیا کہنا، یہ بیچارے جو کسی اسپتال میں علاج نہیں کروا سکتے ہیں، کوئی کاروبار نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی انہیں ڈھنگ کی نوکری دیتا ہے، انہیں تو بس کوئی آسرا چاہیے اور یہ آسرا کسی پیر فقیر کی صورت انہیں مل جاتا ہے۔کیسی دلچسپ بات ہے کہ جس قسم کے پیر بابے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں بالکل ویسے ہی ہندوستان میں بھی ملتے ہیں، بالکل اسی طرح کاروبار کرتے ہیں، وہی سہانے سپنے دکھاتے ہیں، وہی ناقابل یقین دعوے کرتے ہیں، اسی طرح لکشمی کی گارنٹی دیتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بھگوان کا نام استعمال کرتے ہیں، کسی درگا دیوی، کسی وشنو کا تعویذ گنڈا دیتے ہیں اور لوگ اسی طرح ان کے دیوانے ہیں جیسے ہمارے ہاں کے مرید اپنے بابوں کے۔ دراصل یہ تمام پیر بابے انسان کی بےبسی اور مستقبل کے ان دیکھے خوف کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس سے دنیا کا کامیاب ترین انسان بھی مشکل سے ہی چھٹکارا پا سکتا ہے، ان پیر بابوں کے علم کو آزمانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کا علم انہی پر آزمایا جائے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔
کالم کی ضروری دم:جنگ کے بزرگ کالم نگار نے 22فروری کے کالم میں ایک ’’صاحب باطن‘‘ کا خط شامل کیا ہے جس میں لکھا ہے’’چند روز پہلے میں نے اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق دفتر میں صلواۃ التسبیح شروع کی تو قیام کے دوران اچانک محسوس ہوا کہ میں آسمان کے ایک ایسے مقام پر ہوں جہاں فرشتے خداوندقدوس سے براہ راست احکام وصول کرتے ہیں۔ چاروں طرف تا حد نظر سفید لباس میں ملبوس فرشتے ہی فرشتے ہیں، اتنے میں رب العزت کی آواز گونجتی ہے کہ’ڈاکٹر صاحب کی عبادت کا ثواب دگنا کردو۔‘اس کے فورا ً بعد تمام فرشتے آپس میں چہ مگوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔ سب فرشتے حیران ہیں۔۔۔۔۔!‘‘ میرے تھوڑے بہت علم کے مطابق خدا کی آواز صرف حضرت موسیٰؑ سنتے تھے اور خدا ان سے ہم کلام ہوتا تھا اسی لیے انہیں کلیم اللہ کہا جاتا ہے، یہ کسی اور نبی کو بھی نہیں کہا گیا، اسی طرح معراج کی سعادت بھی صرف اللہ کے آخری نبی ﷺ کو حاصل ہوئی تھی، مگر یہاں بزرگ کالم نگار نے جو لکھا ہے اس پر میں انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھ سکتا ہوں۔