امن مگر انصاف کے ساتھ

جب رچرڈ نکسن نے پہلی بار چین کا دورہ کیا تو اس نے ماؤزے تنگ سے سوال کیا کہ کیا آپ امن کے خواہشمند ہیں؟ تو ماؤزے تنگ نے جواب میں کہا کہ ہم انصاف کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔

ہم بھی امن چاہتے ہیں لیکن کسی ملک کی بدمعاشی سے ڈر کر نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر۔ پاکستان کبھی بھی بھارت کا طفیلی بن کر نہیں رہ سکتا۔ یہ ہمارے قومی مزاج کے خلاف ہے۔ کسی بھی قسم کا تجزیہ کرتے وقت یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیئے۔

اس وقت صدر ٹرمپ اور مودی کی ایک ہی فلاسفی ہے کہ اپنے مخالف ملکوں کے خلاف مکمل جنگ سے بچتے ہوئے باقی ہر طرح کی جارحیت کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ اسے اپنی شرائط پر مذاکرات کی میز تک لایا جا سکے۔ پاکستانی حکومت اس بات کو سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھارتی جارحیت کا اگلے دن ہی جواب دے کر پیغام دے دیا ہے کہ بھارت خود کو امریکہ اور پاکستان کو شمالی کوریا نہ سمجھے۔

بھارت کی سب سے بڑی قوت اس کی معیشت ہے لیکن جنگ کی صورت میں یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ اگر پاک بھارت جنگ ہوئی تو بھارت سے بڑی تعداد میں سرمایہ بھاگ جائے گا اور اس کے معاشی قوت بننے کے تمام خواب ٹوٹ جائیں گے۔ ہمارے پاس تو کھونے کے لیے ویسے بھی کچھ نہیں ہے۔ اس لیے جنگ سے بھارت کو ڈرنا چاہیئے نہ کہ پاکستان کو۔ ہمیں بھارت کے خلاف جارحانہ رویہ برقرار رکھنا چاہیئے۔ جس ملک میں مودی جیسا حکمران موجود ہو اس کے خلاف مکمل جارحانہ انداز ہی امن کی ضمانت ہے۔ مشرف دور سے لے کر نواز شریف حکومت تک، ہم مسلسل پیچھے ہٹتے رہے ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بھارت کا رویہ مزید جارحانہ ہوتا گیا ہے اور ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوتے گئے۔ پاکستان جب بھارت جیسا رویہ دکھائے گا تب جا کر مذاکرات کی میز سجے گی۔ عالمی قوتیں بھی متحرک ہوں گی اور بھارت کے اندر سے بھی امن کی صدائیں بلند ہوں گی۔ جب بھارت میں ہونے والے کسی بھی حملے کے جواب میں آپ مذاکرات کی دہائی دیں گے تو پوری دنیا آپ کو مجرم سمجھے گی۔

اب ایک نیا پاکستان سامنے آنا چاہیئے جو اعتماد سے اور برابری کی سطح پر بات کرے۔ ورنہ بھارت پوری دنیا کے ساتھ مل کر ہمیں دباتا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے