ردِ عمل

نریندر مودی بالآخر جنگ کی آگ بھڑکا کر رہے۔ ایک مذہبی انتہا پسند کو حکمران بنانے کی سزا بھارت تو بھگتے گا، ساتھ پڑوسی بھی کہ آپ ہمسایہ تبدیل نہیں کر سکتے۔

گھر ہو یا ملک، اگر کوئی باہر سے حملہ آور ہو تو دو ہی ردِ عمل ممکن ہیں: ایک فوری۔ یہ ردِ عمل زیادہ سوچا سمجھا نہیں ہوتا۔ یہ فی البدیہہ ہوتا ہے۔ بالعموم جبلّی۔ دوسرا ردِ عمل تاخیر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس میں دماغ کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ بروئے کار ہے۔ یہ ردِ عمل سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ بالعموم عقلی۔

پہلے بھارتی حملے کے بعد، پاکستان نے جواباً کوئی عسکری کارروائی نہیں کی۔ بھارت میں کوئی صاحبِ عقل قیادت ہوتی تو پاکستان کے صبر کو غنیمت جانتی۔ ایسا نہیں ہوا اور بھارت نے دوسری بار حماقت کر دی۔ پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ جواب دیتا۔ پاکستان نے اس کے بعد، ایک بار پھر توجہ دلائی ہے کہ امن کو موقع دیا جائے۔ تادمِ تحریر بھارت کا جواب سامنے نہیں آیا۔

پہلے حملے پر، بحیثیت قوم ہمارا ردِ عمل بہت مناسب رہا۔ کسی طبقہ زندگی میں ہیجان پیدا نہیں ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت، فوج، میڈیا، اپوزیشن سب نے ذمہ داری دکھائی۔ جنگ کی فضا ہو تو پہلا معرکہ اعصابی ہوتا ہے۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ ہم اس میں سرخرو رہے۔ اللہ نے ہمیں دوسری بار بھی سرخرو کیا‘ جب ہم نے اپنی عسکری برتری ثابت کی۔

سوال یہ ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ ہمارا ردِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو وہ بادلِ نخواستہ ہی سہی، ہمیں لڑنی ہے؛ تاہم ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ بات یہیں رک جائے۔ ہر چیلنج ایک موقع بھی ہوتا ہے۔ ہم چاہیں تو پانسا پلٹ سکتا ہے۔ ہم مدتوں سے کٹہرے میں کھڑے ہیں کہ ہماری سرزمین پر دہشت گرد پناہ لیتے ہیں۔ ہم چاہیں تو اس تاثر کو یکسر بدل سکتے ہیں۔ مودی صاحب نے جو چال چلی ہے، ہم اسے لوٹا سکتے ہیں۔ ہم کوشش کریں تو بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے ہمیں میدانِ جنگ کا انتخاب اپنی مرضی سے کرنا چاہیے۔ یہ میدان اخلاق، صبر اور حکمت کا ہے۔ بھارت میں ہیجان کا غلبہ ہے۔ مودی صاحب نے سوچ سمجھ کر ہیجان برپا کیا تھا۔ وہ لیکن یہ بھول گئے کہ جہاں ہیجان آ جاتا ہے، وہاں سے حکمت رخصت ہو جاتی ہے۔ وہ اگر اب اس ہیجان سے نکلنا چاہیں گے تو یہ وار ان پر الٹا پڑ جائے گا۔ وہ اسے انتخابات تک برقرار رکھنا چاہیں گے۔ پاکستان اس چال کو ناکام بنا سکتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو بہت موثر انداز میں اپنا مقدمہ بین الاقوامی سطح پر پیش کرنا چاہیے۔ مقدمہ یہ ہے کہ بھارت نے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان اگر پہلی دفعہ ہی جواباً بھارتی طیارے مار گراتا تو وہ اس کا حق رکھتا تھا۔ پاکستان کا تحمل دراصل اس کی اس خواہش کا اظہار ہے کہ وہ اس خطے میں امن کا داعی ہے؛ تاہم یک طرفہ صبر تادیر باقی نہیں رہتا۔ اس سے پہلے کہ کوئی بڑی جنگ شروع ہو، عالمی برادری کو مداخلت کرنے ہوئے، بھارت کو روک دینا چاہیے۔

پلوامہ کے واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت تادمِ تحریر سامنے نہیں آ سکا۔ وزیر اعظم عمران خان مشترکہ تحقیقات کی پیش کش کر چکے ہیں۔ اس لیے اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملہ آور ہونا بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ پاکستان اس تجویز میں مزید توسیع کرتے ہوئے، یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ساتھ کوئی تیسرا ملک تحقیقات کا حصہ بنے تو پاکستان اس کا خیر مقدم کرے گا۔ اس مقدمے کو ایک پُرجوش سفارتی مہم کے ذریعے دنیا کے سامنے لایا جائے۔

دوسرا یہ کہ دنیا اور اس خطے کے مکینوں کو بطورِ خاص مخاطب بنایا جائے کہ اگر اس علاقے کے کسی ایک ملک میں بھی مودی جیسا کوئی مذہبی انتہا پسند برسرِ اقتدار آ جائے تو اس کا وبال پورے خطے پر پڑے گا۔ انتہا پسند دنیا کے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ وہ کسی ملک میں عوامی ووٹوں سے برسرِ اقتدار آ جائیں۔ ایک وقت میں جب الجزائر میں مسلم انتہا پسند انتخابات جیت گئے تو دنیا ان کے اقتدار کے راستے میں حائل ہو گئی تھی۔ ضرورت ہے کہ مودی جیسے کرداروں کے معاملے میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہو۔ مودی صاحب کے مذہبی انتہا پسند ہونے میں شاید ہی کسی کو شبہ ہو۔

میرا خیال ہے کہ یہ پیغام مؤثر ابلاغ کے ساتھ بھارت کے شہریوں تک بھی پہنچایا جائے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ اکثریت غربت و افلاس کی زد میں ہے۔ ایسے ملک کی سیاسی قیادت اگر طبلِ جنگ بجانے پر آمادہ ہو تو سب سے زیادہ نقصان اس کے اپنے شہریوں کا ہوتا ہے۔ ہمیں بطور قوم بھارت کے عوام سے اظہارِ ہمدردی کرنا چاہیے۔ امن کی آشا کے لیے شاید اس سے بہتر وقت کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔

اخلاق، صبر اور حکمت کا یہ راستہ ہمیں یہ موقع بھی فراہم کرے گا کہ ہم اپنی اصلاح بھی کریں۔ خود احتسابی کسی کمزوری کا نہیں، طاقت کا اظہار ہے۔ بہادر لوگ ہی اپنی ذات پر تنقیدی نظر ڈال سکتے ہیں۔ اگر ہم بھارت پر اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ خود بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ہمیں اپنے قومی وجود کو ایسے عناصر سے پاک کرنا ہے جن سے وابستگی کا ہم دفاع نہیں کر سکتے۔ جائز رشتہ وہی ہوتا ہے جس کا اعلانیہ اعتراف کیا جا سکے۔ اگر ہم اس مرحلے سے گزر جائیں تو مجھے پورا یقین ہے کہ بھارت سفارتی محاذ پر شکست کھا جائے گا۔ چین جیسے دوست بھی ہمیں یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان غیر ریاستی عناصر کے بارے میں عدم برداشت کی حکمتِ عملی اختیار کرے۔

پاکستان کو ایک اخلاقی برتری یہ بھی حاصل ہے کہ ہماری قومی سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک ایسی نہیں ہے جو بھارت سے نفرت کو اپنی سیاست کی بنیاد قرار دیتی ہو یا مذہبی اقلیتوں کے باب میں کسی امتیازی سلوک کی قائل ہو۔ مودی کی موجودگی میں بھارت یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ وہ مذہبی طور پر ایک متعصب آدمی ہیں۔ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت بھارت کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتی۔ ضرورت ہے کہ اس بات کو اپنی سفارتی مہم کا حصہ بنایا جائے۔

بھارت کے حملے پر عالمی ردِ عمل ہمارے لیے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ جس طرح پلوامہ حملے کے بارے میں دنیا نے بھارت کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے، اسی طرح عالمی برادری نے بھارت کی حملے کی بھی واضح لفظوں میں مذمت نہیں کی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا اس خطے کو اب کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔ امریکہ بھارت کو جنوبی ایشیا میں ایک بڑا کردار سونپنا چاہتا ہے لیکن، وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان امریکہ سے پوری طرح مایوس ہو کر اپنا تمام وزن کسی دوسرے پلڑے میں ڈال دے۔ ہمیں اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

او آئی سی سے ہمیں زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیے؛ تاہم ہم سعودی عرب سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکہ کو ایک مثبت کردار ادا کرنے پر آمادہ کرے۔ خطے میں جنگ کی آگ کا بھڑکنا کسی کے لیے مفید نہیں۔ پاکستان اب بھی امن کی بات کر رہا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ عالمی برادری اس باب میں اپنا کردار ادا کرے۔ مودی اس ہزیمت کے بعد، شاید ہی الیکشن جیت سکیں۔ انہوں نے قدم اٹھایا اور اپنے ملک کو اخلاقی طور پر اور میدانِ جنگ میں رسوا کیا۔ بھارتی عوام اگر بیدار ہیں تو مودی سے جان چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ بھارت مزید حماقت نہ کرے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمیں چین اور دوسرے دوست ممالک سے بھی جنگ بندی کے لیے مدد لینا چاہیے۔ اسی طرح خطے کے ان ممالک کو بھی ہم نوا بنانا چاہیے جو بھارت کی خود پسندی کا ہدف ہیں۔

پاکستانی افواج نے صبر اور دفاعی قوت کا جو مظاہرہ کیا ہے، وہ پوری قوم کے لیے باعثِ اطمینان ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اہلِ شر سے محفوظ رکھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے