پاکستان کو اب کیا کرنا چاہیے؟

اللہ کا شکر ہے ، پاکستان سرخرو ہوا ۔ کل کا دن اعصاب شکن تھا ، آج کی صبح مگر اللہ کا انعام بن کر طلوع ہوئی ہے ۔ حساب چکا دیا گیا ہے اور پوری جمع تفریق کے ساتھ ۔ یہی وقت ہے جب قومیں اپنی فکری صف بندی کرتی ہیں ۔

ہمیں بھی اس وقت اپنی فکری صف بندی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس ضمن میں چند پہلوبہت اہم ہیں اور ضروری ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھ لیا جائے ۔

پہلی بات جو ہمیں پلے باندھ لینی چاہیے یہ ہے کہ بھارت ہمارا دشمن تھا ، دشمن ہے اور رہے گا ۔ اس کے ساتھ دوستی نہیں ہو سکتی ۔ جو اس سے دوستی کرنا چاہتا ہے یا اسے دوست سمجھتا ہے وہ یا تو خود دھوکے میں ہے یا ہمیں دھوکے میں رکھنا چاہتا ہے ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی باتیں فریب کے سوا کچھ نہیں ۔ بھارت کے ساتھ زیادہ ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو سکتی ہے ، دوستی قائم نہیں ہو سکتی ۔ بھارت کو جب موقع ملا اس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ۔ جو لوگ اس دوستی پر اصرار کرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے قوم کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ بھارت ہمارا دشمن نہیں دوست ہے ان کے فکری شجرہ نسب کو غور سے دیکھیے اور خوب پرکھ لیجیے ، ان کے فکری شجرہ نسب میں کہیں نہ کہیں ایک عدد این جی او ضرور تشریف فرما ہو گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بھارت کو مکمل طور پر برباد کر دینے کی صلاحیت آپ کے پاس ہر وقت موجود ہو ۔ یہ صلاحیت جتنی زیادہ ہو گی امن کے امکانات اتنے ہی روشن ہو جائیں گے۔ اس صلاحیت پر ہم نے کمپرومائز کر لیا تو بھارت ایک لمحہ ضائع کیے بغیر چڑھ دوڑے گا ۔ ابھی پاکستان پر حملہ ہوا تو عالمی برادری اقوال زریں سنا رہی تھی اور بھارتی قیادت ، بھاتیے ٹی وی چینلز اور سماج سب کے منہ آگ اگل رہے تھے لیکن آج پاکستان کی جانب سے دو جہاز گرائے گئے تو سشما سوراج کو بھی فوری طور پرامن کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے ۔

تیسری بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کوایک خطرہ بھارت سے ہے جو بہت واضح ہے ۔ لیکن ایک خطرہ اندر سے بھی ہے جو غیر واضح ہے اور اسے ابھی تک سمجھا نہیں جا رہا ۔ یہ بیرون ملک سے ڈونیشنز لے کر ان کے ایجنڈے کو آگے پھیلانے والی این جی ا وز اور ان کے وہ کارندے ہیں جو معاشرے کو بھارتی خطرے سے بے نیاز کر دینا چاہتے ہیں ۔ یہ قوم کو بھارت کے معاملے میں ڈی سینسٹائز کر دینا چاہتے ہیں ۔ ان کے نزدیک بھارت کو دشمن سمجھنا انتہا پسندی ہے ۔ ان کے نزدیک مطالعہ پاکستان ساری خرابیوں کی جڑ ہے ۔ یہ مطالعہ پاکستان ہی ہے جو نفرت پھیلا رہا ہے ورنہ بھارت تو سراپا محبت ہے۔ مطالعہ پاکستان پڑھنے والی نسل بلاوجہ ہی بھارت کو دشمن سمجھتی ہے ۔

جب مطالعہ پاکستان تو طنز و تحقیرکا نشانہ بنا لیا جاتا ہے تو پھر واردات کا اگلا مرحلہ آتا ہے ۔ یہ قوم کو ملامتی صوفی اور نفسیاتی مریض بنانے کا مرحلہ ہے ۔ یہ آپ کو باور کرائیں گے کہ مطالعہ پاکستان تو جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ بھارت نے تو کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا ۔ یہ آپ کو بتائیں گے کہ بھارت نے تو کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا یہ تو پاکستان کی اپنی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے بھارت جیسا امن دوست ملک غصے میں آ جاتا ہے۔ یہ کبھی کشمیر پر بھارتی مظالم کی بات نہیں کریں گے ، ان کی زبان پر بھارت کے لیے کبھی حرف مذمت نہیں آئے گا اور انہیں بھارت کی پالیسیوں میں کبھی کوئی خرابی نظر نہیں آ ئے گی ۔ ان کے نزدیک ہر خرابی پاکستان میں ہے۔ بھارت فاٹا اور بلوچستان میں ناجائز طور پر مداخلت کرے تو یہ اس کا الزام بھی پاکستان کو دیں گے کہ بھارت پر کیوں اعتراض کرتے ہو، اپنا گھر ٹھیک کرو ۔ لیکن کشمیر یوں کی جائز تحریک کے حق میں ان کے منہ سے کبھی نہیں نکلے گا کہ بھارت کو انہیں حق خود ارادیت دینا چاہیے۔

ان کا طریق واردات بھی سمجھنا ہو گا ۔ یہ ہر وقت ریاست کے مخالف پلڑے میں پیٹ کے بل رینگ رہے ہوں گے ۔ پاکستان کی دفاعی بجٹ پر بھی انہیں تکلیف ہوتی ہے اور کبھی پاکستان بھارتی جارحیت کا نشانہ بن جائے تو یہ ریاسست اور اداروں کو طنز و حقارت کا نشانہ بنانا بھی شروع ہو جاتے ہیں ۔ ڈپلومیسی کی دنیامیں دشمن کچھ کر جائے تو ان کے نزدیک یہ دشمن کی کامیاب سفارت کاری ہے اور پاکستان چند امکانات تلاش کر لے تو یہ چیخنا شروع کر دیں گے کہ یہ تو غلط ہو رہا ہے ۔چوتھی بات گویا یہ ہوئی کہ ریاست کو این جی اوز کے ان فکری کارندوں اور خود این جی اوز کے طریقہ واردات ، ایجنڈے اور ان کو ملنے والی ڈونیشنز پر نظر رکھنا ہو گی۔

پانچویں بات یہ ہے کہ ہمیں امت کے تصور اور قومی ریاست کے تصور میں ہم آہنگی ، توازن اور اعتدال لانا ہو گا ۔ او آئی سی اگر بھارت کی سشما سوراج کو بلاتی ہے تو ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ۔ او آئی سی ویسے ہی صفروں کا مجموعہ ہے جو سارا دن بیٹھ کر جتنی بار ضرب کھاتی رہیں انجام صفر ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس کی ایک علامتی اہمیت تو ہے کہ یہ مسلمان ممالک کا نمائندہ فورم ہے۔ اب اگر وہاں بھارت کو بلایا جاتا ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا امت کہاں ہے؟

ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ہم نے صرف ایک اجلاس میں شرکت سے انکار کرنا ہے یا او آئی سی کی رکنیت سے بھی دستبردار ہونا ہے ۔ او آئی سی کو پاکستان کے جذبات کی پرواہ نہیں تو پاکستان کو او آئی سی نے اب تک کیا دیا ۔ ہم نے تو فلسطین کی وجہ سے اسرائیل کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور او آئی سی بھارت کو گلے لگاتی پھرے تو ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا ۔ یاد رکھیے کہ فلسطین بے شک امت کا مسئلہ ہے لیکن بنیادی طور پر یہ عرب ممالک کا مسئلہ ہے جیسے کشمیرپاکستان کا مسئلہ ہے۔ امت اگر ہمارے احساسات سے بے نیاز ہے تو ہمیں کچھ سوچنا ہو گا کہ امت اور نیشن سٹیٹ کے تصور میں ہم آہنگی کیسے لائی جا سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے