ہم پُراُمید ہیں۔۔۔!

حالات یہ ہیں کہ بھارت باربار ہم سے آنکھ مچولی کررہاہے۔کشمیر میں ظلم پر بس نھیں بلکہ سرحدی علاقوں میں فضائی کارروائیوں کی مشق کرچکاہے جس پر پاکستان نے جوابی کارروائی بھی کی اورپائلٹ کی گرفتاری ورہائی بھی عمل میں آچکی ہے۔پاکستان وبھارت کے درمیان یہ تناؤ کوئی نئی بات نھیں ہے لیکن اس بار پاکستان کی طرف سے جو ردِ عمل رہاہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے روایتی جذباتیت کامظاہرہ کرنے کی بجاے معاملہ فہمی و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوے بھارت کو جگک کی خواہش پرنظرِ ثانی کرنے کی ترغیب دی ہے۔

بھارت کے اچانک حملے کے بعد عوامی ردِ عمل ایک روایتی جذباتیت پرہی مبنی رہا۔ بھارتی طیاروں کی آمد وواپسی پر کڑی تنقید اور دوسرے دن دوبھارتی طیاروں کی تباہی پر فوج کی تحسین کی گئی ۔ فوج کو سیاسی وسماجی سطح پر یہ یقین دلایا گیاکہ ہرقسمی صورت حال میں عوام وعوامی نمائندے فوج کی پُشت پر ہیں ۔سماجی تنظیمو ں،وکلا و مذہبی تنظیموں نے جلوس نکال کر پاکستان و بھارت کشیدگی میں فوج کو بھرپور کارروائی وجرات کامظاہرہ کرنے کی ترغیب دی ۔سماجی ذرائع ابلاغ پر "مجاہدینِ "نے بھی جنگ کی خواہش کااظہار کیا اور اپنے تبصروں میں امن کی بجاے جنگ کو ترجیح دی کہ بھارت اب اپنی حد پارکرچُکاہے سو پاکستان کو اور نھیں تو کم ازکم دہلی تک تو جانے کے ساتھ ساتھ کشمیر بھی آزاد کراناچاہیے۔

پاکستانی عوام کے اس جذباتی ردِ عمل کو ایک طرف رکھتے ہوے پارلیمان و عسکری قیادت کے ردِ عمل کو دیکھاجاے تو حالات مکمل طور پر پُرامید کرتے ہیں کہ ہماری قیادت کم از کم اس سطح پرسوچنے لگی ہے کہ مُسلح جنگ ہی مسائل کاحل نھیں بلکہ سفارتی واخلاقی سطح پر بھی دُشمن سے لڑاجاسکتا ہے۔پاکتا ن کی طرف سے بھارتی پائلٹ کی رہائی سمیت تمام معاملات میں حکومت وحزبِ اختلاف اور فوج ایک ہی موقف اپناے ہوے ہیں جوکہ خؤش آیند ہے۔ابھی نندکی رہائی پر حزبِ اختلاف کی طرف سے "مودی کے یار و غدار ” کے نعروں کی بجاے سنجیدگی سے حکومتی فیصلے کوسراہاگیا۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قیادت اس وقت جنگ کی بجاے امن کی علم بردار ہے جب کہ بھارتی سرکار جنونی کیفیت سے گزررہی ہے۔

اب کی بار سفارتی واخلاقی حوالے سے عالمی کینوس پر پاکستان کی توکیر سفید عَلَم تھامے ہوے اُبھری ہے ۔بھارت کے منفی رویے نے ہمیں یہ جواز مہیاکیا ہے کہ ہم بھارت کو تنہاکرسکیں اور یہ بہتر موقع ہے کہ ہم اپنے سفارت خانوں کو متحرک کریں تاکہ ہم اپناموقف آسانی سے دنیا تک پہنچاسکیں ۔ اپنے سرحدی علاقوں میں بھارتی چھیڑچھاڑکے مسئلے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں ہونے والے ظلم پر بھی ہمیں بھارت کوبے نقاب کرتے ہوے پاکستان و کشمیرکے حق میں عالمی راہ ہم وار کرنی ہوگی ۔ کشمیر کے مسئلے کو اُجاگر نہ کیاگیاتو یہ پاک بھارت کشیدگی کے بنیادی محرک کونظرانداز کرنے والی بات ہوگی جس سے ہمارے موقف کوہی نقصان پہنچے گا۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں بھارتی وعالمی دباؤ نھیں بل کہ زمینی حقائق کومدِ نظررکھتے ہوے غیرریاستی مسلح جتھوں بارے بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ان سے ہمیں فائدہ کتناہورہاہے اور نقصان کتنا ہواہے۔دباؤعوامی ہو یاعالمی ریاست کو ہرطرح کے دباؤ سے آزاد ہوکر فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور ہماری قیادت کوبھی آزادانہ طور پر ریاستی مفادمیں فیصلے کرنے چاہئیں ۔محض بھارت کی ضد یاعوامی دباؤ کے نتیجے میں اگرریاست نےمسلح جتھوں کے مسئلے کو نظراندازکرنے کی روایت کو برقرار رکھاتو ہمیں کسی وقت بھی بڑے نقصان کاسامناکرناپڑ سکتاہے ۔پاکستان وبھارت کے درمیان کشیدگی میں افغانستان کےکسی حل کی طرف جانے والے مسئلے کو بھی مدِ نظر رکھناچاہیے کہ ہماری کسی بھی طرح کی جذباتیت خطے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ عوام نہ سہی لیکن ہماری قیادت ضرور معاملہ فہم ومتحمل مزاج ہے۔پُرامید بھی ہیں کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت اور پارلیمان ریاستی مفادمیں متحد ومعاملہ فہمی کی اس روایت کوبرقرار رکھے گی۔

سماجی ومذہبی تنظیموں اورعوام کو بھی سنجیدہ وخطرناک مسائل پر انفرادی و گروہی ردِ عمل کی بجاے اپنی اپنی محبوب شخصیوکں یا سیاسی وعسکری قیادت کےردِ عمل کویکھتے ہوئے راے دینی چاہیے۔ اس طرح کے معاملات ہمیشہ قومی تنظیم واتحاد کاتقاضہ کرتے ہیں نہ کہ جتھوں وگروہوں میں بٹنے یاجذباتیت کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے