کشمیر حکومت کے پاس کفن کیوں نہیں؟

لائن آف کنٹرول کے ہر دو اطراف چلنے والی اندھی گولی کا شکار باشندگان ریاست جموں و کشمیر ہیں ۔ لڑائی ہندوستان اور پاکستان میں ہے اور میدان جنگ ریاست جموں و کشمیر ہے ، دونوں طرف لاشیں اٹھ رہی ہیں ، گھر تباہ ہو رہے ہیں ، لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کر رہی ہے ، انسانی المیہ کے اس کھیل کے کھلاڑیوں کے مفادات کا ایندھن ریاست کے لوگ اور تماشائی دونوں اطراف کی لوکل اتھارٹیز (حکومتوں) کی سیاسی قیادت ہے ، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہالوکاسٹ(Holocaust) روکنے کے لیے کیا ہو سکتا ہے ، اس سوال کا جواب زندہ باد، مردہ باد ایسے جذباتی نعروںاور فضا کی پرورش میں تلاش کر کے رہبری چمکائی جا رہی ہے ۔

یہ حقیقت ہے اُس پار جو کچھ ہو رہا ہے ،اسے روکنے کے لیے آزادکشمیر کے حکمرانوں کے پاس اختیار ہے نہ وسائل۔ لیکن اس سے دلچسپ بات یہ کہ جو کچھ لائن آف کنٹرول پر آزادکشمیر کی طرف ہو رہا ہے ، حکومت آزادکشمیر کے پاس شہداء کی لاشیں اٹھانے اور کفن دن کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ بھی پوری نہیں کی جا رہی ہیں ۔

آزادکشمیر حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل سردار کرم دادخان جو مشہور وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کے آئینی امور اور مسئلہ کشمیر پر عبور رکھتے ہیں کے مطابق آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے پاس مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے قراردادیں پیش کرنے کے علاوہ اور حکومت آزادکشمیر کے پاس شہداء کی لاشیں اٹھانے اور ان کے کفن دفن کے علاوہ کوئی اختیار نہیں۔

لائن آف کنٹرول پر واقع آزادکشمیر کے 13انتخابی حلقوں میں سے 11حلقوں کی نمائندگی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز شریف کر رہی ہے ، ضلع نیلم سے سپیکر اسمبلی ، حلقہ 5مظفرآباد چناری چکوٹھی سے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر ، حلقہ 6مظفرآباد لیپہ سے وزیر حکومت مصطفی بشیر عباسی ، حویلی فاروڈ کہوٹہ سے چوہدری عزیز ، عباس پور سے چوہدری یاسین گلشن ، نکیال سے فاروق سکندر ، کھوئی رٹہ سے راجہ نثار، سماہنی سے علی شان سونی ، برنالہ بھمبر سے کرنل ریٹائرڈ وقار نور،چڑھوئی سے اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین ، کوٹلی سے ملک نواز اور سینئر وزیر طارق فاروق کے انتخابی حلقے کا کچھ علاقہ لائن آف کنٹرول سے منسلک ہے ۔

حکومت آزادکشمیر کے اعداد و شمار اور وزیراعظم آزادکشمیر فاروق حیدر کے ایک اخباری بیان کے مطابق ان 13انتخابی حلقوں کی 5لاکھ آبادی ، بھارتی فوج کی فائرنگ کی زد میں ہے ۔ کیا ان 5لاکھ لوگوں کی حفاظت کے لیے ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں؟

سیز فائر لائن کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ 1988سے جاری ہے ، 30سال کے عرصہ میں 2ہزار سے زائد صرف ضلع نیلم کے لوگ شہید ہوئے ۔۔۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شہادتوں کے بعد سنجیدہ اقدامات ( پختہ بینکرز، محفوظ متبادل شاہرات ، محفوظ متبادل بستیاں ، صحت کی سہولیات ) کرنا آزادکشمیر کی حکومتوں کی ذمہ داری تھی ، جس میں بے شرمی کی حدتک ناکامی دیکھنے کو ملی ۔

ایل اوسی پر جنگی صورتحال کے اس 30سال کے عرصہ میں آزادکشمیر سیاستدانوں نے دنیا بھر کے ممالک کے جو دورے کیے ان کے اخراجات کم از کم 50سے 60کروڑ کے درمیان ہوں گے۔ موجودہ حکومت اڑھائی سال کے عرصہ میں 3کروڑ سے زائد رقم بیرون ملک دوروں پر خرچ کرچکی ہے ۔کیا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آزاد حکومت عالمی سطح پر کسی بھی جگہ فریق ہے ؟ کیا حکومت آزادکشمیر کے نمائندوں نے اس 30سال کے عرصہ میں کسی بڑے پلیٹ فارم پر بات کی ؟ اگر کسی ذیلی پلیٹ فارم پر کوئی بات ہوئی اس بات کا بیانیہ قابل قبول شمار ہوا؟ یقینا ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ۔جب یہ سب کچھ حکومت آزادکشمیر کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں تو اس مشق کا فائدہ ؟؟؟ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ 28اپریل 1949کو اُس وقت کی آزادکشمیر کی حکومت اور مسلم کانفرنس نے جو معاہدہ کراچی کیا ، آزادکشمیر کی حکومتیں اس دائرہ اختیار سے باہر جا کر عیاشی نہ کرتیں اور لائن آف کنٹرول پر لاشیں اٹھانے اور ان کے کفن دن کے فرائض احسن طریقے سے ادا کرتیں۔

سری نگر کے لوگوں کو مرنے سے بچانے کا اختیار آزادکشمیر کی حکومت کے پاس نہیں، یہ حقیقت ہے، لیکن لائن آف کنٹرول پر 5لاکھ آبادی کے لیے پختہ مورچے ، متبادل محفوظ شاہرات اوربستیاں تعمیر کرنا تو ان کے اختیار میں تھا ، 2014میں کم و بیش اڑھائی ارب روپے کا منصوبہ زیر غور آیا ، 5سال کے عرصہ میں اس کی شروعات نہ ہو سکی ، یہ ہے آزادکشمیر کے سیاستدانوں کی اہلیت جنہیں ہم رہنما کہتے ہیں ۔۔۔۔ کیا یہ رہبری ہے ؟؟؟

موجودہ حکومت نے اسمبلی ممبران کا صوابدیدی ترقیاتی بجٹ 50لاکھ سے اٹھا کر غالباً ساڑھے 4کروڑ کر دیا ، 2سال 7ماہ کے عرصہ میں کم و بیش 50ارب کا ترقیاتی بجٹ خرچ ہو چکا ، تمام تر ترقیاتی سکیمیں ہر حلقہ انتخاب کے ممبر اسمبلی کی مشاورت سے ترتیب دی گئیں ، کوئی ایک سکیم نظر نہیں آتی جولائن آف کنٹرول کے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ترتیب دی گئی ہو۔ اس ساری صورت حال میں ایڈووکیٹ جنرل آزادحکومت کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ حکومت آزادکشمیر کے پاس لاشیں اٹھانے اور کفن دفن کے اختیارات ہیں ،مگر افسوس یہ فرائض بھی عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت پورے کیے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں برپا وحشت روکنے کے لیے آزادحکومت کی مشاورت بھی غیر تسلیم شدہ ہے ، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ روکنا۔۔۔۔۔ یہ اختیاربھی نہیں ۔5لاکھ لوگوں کی زندگیاں بھارتی فوج کے رحم و کرم پر ہیں انہیں بچانا ریکارڈ کی روشنی میں ان کی ترجیح نہیں رہی، کفن دفن کا انتظام لوگ کر رہے ہیں ، تو پھر یہ آزادکشمیر کے حکمران کس مرض کی دوا ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے