’’مجھے اجازت نہیں!‘‘

میں تو ایک گناہگار آدمی ہوں مگر عجب بات یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مجھ سے دعاؤں کی طلبگار رہتی ہے۔ جس کسی سے ملاقات ہوتی ہے وہ جاتے ہوئے ضرور کہتا ہے ’’مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں‘‘ جس پر مجھے بہت ندامت ہوتی ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ اُنہیں مجھ میں ضرور کوئی ایسی چیز دکھائی دی ہو گی جو وہ مجھے دعا کے لیے کہہ رہے ہیں۔ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔ اپنے نفس کو دھوکے میں مبتلا نہیں ہونے دیا اور خود کو ہمیشہ گناہگار ہی سمجھا۔ خلقِ خدا کو خود سے دور رکھنے کے لیے میں نے اپنے نام کے ساتھ ’’پیرزادہ‘‘ لکھنا بھی بند کردیا جبکہ یہ اعزاز صدیوں سے ہمارے خاندان کی پہچان چلا آرہا ہے۔ ملامتی صوفیوں کی طرح میں نے ایسے کئی کام بھی کیے جو خلق خدا کو مجھ سے بدظن کر سکتے تھے مگر جو ’’اہلِ نظر‘‘ ہیں وہ پہچان لیتے ہیں کہ بظاہر عصیاں کی چادر اوڑھے یہ شخص اندر سے کچھ اور ہے۔ میں الٹا ان لوگوں کی بزرگی کا قائل ہونے لگتا ہوں جو میرے ظاہر کو نہیں دیکھتے اور میرے باطن کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں۔

اللہ تعالی انہیں خوش رکھے اور یہ ہمیشہ میرے بارے میں اسی حسن ظن سے کام لیتے رہیں۔ ایک اور بات جسے میں محض اللہ تعالی کا فضل و کرم سمجھتا ہوں وہ یہ کہ بوقت ملاقات مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی فرمائش کرنے والے میرے بارے میں یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ میں دن کے بیشتر اوقات میں سربسجود رہتا ہوں اور دعائیں مانگتا رہتا ہوں چنانچہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان سرمدی لمحات میں، میں انہیں بھی یاد رکھوں۔ میں ایک گناہگار شخص ہوں لیکن مجھ پر اللہ تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے کہ دعا کی فرمائش کرنے والوں میں سے بعض کو اندازہ ہی نہیں کہ میں ان کےبارے میں کیسے گندے جذبات رکھتا ہوں اور ان کے لئے اگر دعا مانگوں گا تو کیا مانگوں گا۔ اللہ تعالی رازوں کی حفاظت کرنے والا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ اس راز کی بھی حفاظت کرے گا ورنہ یہ لوگ آئندہ مجھے دعا کیلئے نہیں کہیں گے۔

ابھی گزشتہ روز ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں صرف اتنا لکھا ہوا تھا کہ ’’میں آپ سے مزید دعاؤں کا طلبگار ہوں‘‘ مجھے اللہ کے اس نیک بندے کی تلاش ہے، جسے یہ الہام ہوا کہ میں اِس کے لیے ہروقت دعائوں میں مشغول رہتا ہوں اور اب وہ مزید دعاؤں کی فرمائش کر رہا ہے۔ اللہ اس معصوم شخص کے درجات بہت بلند کرے جس نے اپنا نام اور ٹیلیفون نمبر تک نہیں لکھا، مگر اسے یقین ہے کہ مجھے ان دنیاوی رابطوں کی ضرورت ہی نہیں۔ دراصل وہ میرے چھپے ہوئے کمالات جو میں نے کبھی ظاہر نہیں ہونے دیئے کی وجہ سے یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اپنا نام ظاہر کرے نہ کرے لیکن مجھے القا ہو جائے گا اور یوں میں جان جاؤں گا کہ ایس ایم ایس بھیجنے والی بزرگ ہستی کون ہے بلکہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ خود اس بزرگ ہستی کو اپنے بارے میں یہ گمان ہو کہ ان کی باطنی طاقت سے ان کا نام خود بخود مجھ پر عیاں ہو جائے گا۔ میں بہرحال ان کے لیے دعا گو ہوں وہ جو بھی ہیں، جہاں بھی ہیں، جیسے بھی ہیں، خوش رہیں اور مجھ گناہگار کو انہوں نے جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اللہ کرے وہ ان کے دل میں ہمیشہ قائم و دائم رہے۔

ابھی تک میں نے جن حسن ظن رکھنے والے احباب کا ذکر کیا ہے انہوں نے مجھ سے اپنی ارادت کا اظہار دعاؤں کی طلبگاری کی صورت میں تو کیا ہے تاہم ان کی طرز تخاطب سے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور آستانے سے بھی فیض حاصل کرتے ہیں کہ نہیں، البتہ متعدد احباب ایسے بھی ہیں جو اگرچہ مجھے دعا کے لیے نہیں کہتے البتہ جب کبھی ملتے ہیں یا خط لکھتے ہیں تو مجھے پیرومرشد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ رشد و ہدایت کی زیادہ طلب مردوں کو ہوتی ہے یا کم از کم میرے مقدر میں مرد ہی لکھے گئے ہیں۔ بہرحال میں تو پھر بھی یہی کہوں گا کہ میں ایک گناہگار شخص ہوں البتہ انہیں اگر مجھ میں ’’کچھ‘‘ نظر آیا ہے تو میں اس اویسائی کا انکار کرنے والا کون ہوں۔ بہت سے بھید ایسے ہوتے ہیں جو ہرایک پر نہیں کھلتے، اس کے لئے صاحبِ نظر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی یہ فیض نظر عام کرے تاکہ وہ اس خاکسار تک پہنچ سکیں جو خود کو چاہے لاکھ گناہگار کہے اور اس کے اعمال اس کی تائید بھی کرتے ہوں لیکن وہ جانتا ہو کہ میرے گناہ اس کی نظر کا دھوکہ ہیں۔

میں یہ کالم یہاں تک لکھ چکا تھا کہ بھولا ڈنگرمجھے ملنے آیا۔ یہ بدنصیب مجھے ویسا ہی سمجھتا ہے جیسے میں نظر آتا ہوں۔ اس نے یہ کالم پڑھ کر ایک قہقہہ لگایا اور جو کچھ کہا اس پر مجھ سے ارادت رکھنے والے احباب بد مزہ نہ ہوں اور نہ اشتعال میں آئیں کیونکہ اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’اے بے وقوف شخص یہ جو دعاؤں کی درخواست ہے اور یہ جو پیرو مرشد کہنا ہے یہ ان دنوں لوگوں کا تکیہ کلام ہے تم اسے اپنے لیے خاص سمجھ بیٹھے ہو‘‘ اس کا خیال تھا کہ میں اس کی بات کا جواب دوں گا لیکن میں آگے سے خاموش رہا۔ وہ بولا ’’اب بولتے کیوں نہیں‘‘ مگر میں پھر بھی چپ رہا۔ جب اس نے تیسری دفعہ اپنی بات کا جواب مانگا تو میں نے ایک خاص کیفیت میں آنکھیں بند کر کے صرف اتنا کہا مجھے اجازت نہیں۔ یہ سن کر اس کا چہرہ متغیر ہو گیا میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کچھ ہو رہا ہے چنانچہ چند لمحوں بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھا، مجھ سے گستاخی کی معافی مانگی، میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا پیرو مرشد میں کل حاضر ہوںگا میرے کچھ مسائل ہیں خصوصی توجہ فرمائیے گا۔

بھولا ڈنگر آخر بھولا ڈنگر ہی نکلا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے