پرائیویٹ اسکولوں کے ستائے والدین کہاں جائیں؟

ہمارے ہاں قوانین کی حیثیت بھی بالکل ویسی ہی ہے جیسے برطانوی ہندوستان میں ایک عام غریب شخص ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے انگریز مجسٹریٹ کے سامنے دونوں ہاتھ باندھے کھڑا ہو ، ہزاروں سال پہلے ارسطو کی کہی بات ” قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات (یعنی چھوٹے) ہی پھنستے ہیں ، بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں ” ہمارے قدم قدم پر پوری ہوتی نظر آتی ہے –

آج کل کچھ پرائیویٹ سکولوں کے سالانہ امتحان ہو رہے ہیں اور کچھ اپنے نئے تعلیمی سال کا آغاز بھی کر چکے ہیں – پاکستان میں سرکاری تعلیم کے مخدوش حالات سے کون واقف نہیں مگر پیسے دے کر پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم کا بیڑہ غرق ہوتے دیکھنا کافی تکلیف دہ ہوتا ہے – نئے تعلیمی سال کے آغاز پر میں ہرگز کسی پرائیویٹ ادارے کے ذمہ دار شخص سے گزرے تعلیمی سال کی پراگرس نہیں پوچھنا چاہتا ، مگر بطور ایک والد کے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہونے والے چند ایک اہم مسائل کی طرف قارئین کی توجہ چاہوں گا –

اگرچہ ایک مڈل کلاس بچے کے والدین کے لئے مسائل کا آغاز تو نتیجے کے دن کے پروگرام میں شمولیت سے ہی ہو جاتا ہے – پروگرام کے شروع ہونے کے وقت کی پابندی کا نہ ہونا ، بچے اور والدین کے پروگرام میں شامل ہونے کے لیے کپڑوں کا انتخاب اور اس سے پہلے سکول کے پروگرام کے لئے فنڈ کے نام پر والدین کے جیب سے ہزاروں روپوں کی چوری ، مگر اصل امتحان تو رزلٹ کارڈ ہاتھ میں آنے کے بعد نصاب کی نئی کتابوں کی خریداری کے وقت شروع ہوتا ہے-

والدین سے کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ فلاں دکان سے کتابیں ، سکول کے لوگو والی کاپیاں اور یونیفارم خرید لیں

کچھ عرصہ پہلے تک تو رزلٹ کارڈ کے ساتھ نئے نصاب کی لسٹ بھی والدین کے حوالے کر دی جاتی تھی مگر اب یہ لسٹ والدین کے بجائے سکولوں کی پارٹنر شپ میں چلنے والی بکس شاپز کو مہیا کی جاتی ہیں اور والدین سے کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ فلاں دکان سے کتابیں ، سکول کے لوگو والی کاپیاں اور یونیفارم خرید لیں – اب جب والدین اس مخصوص دکان پر پہنچتے ہیں تو دکاندار ہاتھ میں ایک "کند استرا” لئے کھڑا ہوتا ہے کہ آؤ تمہاری کھال اتارنی تو ویسے بھی ہے مگر کند ہتھیار سے اتاروں گا تاکہ تمہاری زیادہ سے زیادہ چیخیں نکلوائی جا سکیں –

اب نصابی کتب کی لسٹ دیکھیں کمپیوٹر ، اردو اور اسلامیات وغیرہ کی کتابیں شہر کے کسی پرائیویٹ پبلیشر ، سائنس اور مطالعہ پاکستان اوکسفورڈ پریس ، ورک بکیں کیمرج سسٹم کی اور حساب کی کتاب پنجاب بک بورڈ کی ہونی ہیں – اب بچہ کیا پڑھے گا اور کیا سمجھے گا، یہ والدین کا مسئلہ ہے نہ کہ سکولوں کے ذمہ داروں کا – رہی کاپیوں کی بات تو وہ سکول سے والدین کو بتا دیا گیا ہوتا ہے کہ سکول کے لوگو والی لینی ہیں لہذٰا بک شاپ والوں نے اپنے پارٹنر کے فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگو والی کاپیوں کی قیمت زیادہ نہیں تو کم از کم بازار سے ملنے والی عام کاپی سے پچیس فیصد زیادہ رکھی ہوتی ہے –

جوں جوں لسٹ کو پڑھتے جائیں تو سکول کی طرف سے درسی کتب اور کاپیوں کے علاوہ سٹیشنری کی بھی ایسی چیزیں شامل نظر آتی ہیں جنھیں میں نہیں سمجھتا ہے کہ بچوں کی اکثریت درست استعمال کر سکتی ہو مثلا یو ایچ یو گم ، سکاچ ٹیپ ، چاٹ پیپر ، واٹر کلرز ، ایپرن ، گلیٹرز ، ربر بینڈز اور فائل کورز وغیرہ – ایسی چیزوں کو نصاب کی لسٹ میں شامل کرنے کا مقصد سوائے والدن کی جیبوں سے ناجائز طریقے سے پیسے نکلوانے کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟

اس کے بعد مخصوص دکانوں سے یونیفارم کی خریداری جیسے لوازمات والدین کے لئے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتے – میرے خیال میں پرائیویٹ سکول تعلیم تو خیر پہلے بھی کم ہی دیتے تھے مگر انہوں نے اب سر عام تعلیم کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے اپنے کاروبار کے خدوخال واضح کر دیے ہیں ، اس سب کچھ کے بعد بننے والے معاشرے کا سوچا جائے تو نہ صرف خوف آتا ہے بلکہ شرم بھی سر نہیں اٹھانے دیتی –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے