آزادکشمیر 70 برس سے آسیب کے سائے تلے کیوں؟

1947میں یہ خطہ جسے آزاد کشمیر کہاجاتا ہے، جنگ کے ذریعے آزاد کروانے کے دعویداروں کا دعویٰ ہم مان لیتے۔۔۔ لیکن جس خطہ کے حکمران واپڈا سے اپنا حق لینے میں ناکام رہے ہوں ، وہاں اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ خطہ اس ریاست کے کچھ سول مسلح کمانڈروں نے لڑ کر حاصل کیا۔

میں1947 سے قبل کی شخصی حکمرانی اور طرز حکمرانی کے دور کو انتہائی ناپسند کرتا ہوں، وہ دور ایک ایسا دور تھا جہاں 95 فیصد عوام جس میں 80 فیصد مسلم اکثریت غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔۔۔۔ لیکن 1947 کے بعد منقسم ریاست کے اس چھوٹے سے خطہ کے حکمرانوں اور 1947سے پہلے کے حکمرانوں کی طرز حکمرانی سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔۔۔۔۔ کل بھی اس خطہ کے لوگ سبجیکٹ تھے آج بھی عنوان ہیں.

ہم ایک شکنجے سے نکلے تو وزارت امور کشمیر کی شکل میں دوسرا شکنجہ مشتاق گورمانی ہم پر مسلط ہو گیا ۔۔۔ 1970تک یہ سفر جاری رہا ایک کے بعد دوسرا مشتاق گورمانی آتا رہا۔

1970میں کچھ حد تک بہتری آئی ۔۔۔ پھر 1974میں ہمارے حصے میں ایک ایسا عبوری آئین آیا جس نے 1947سے قبل کی طرز حکمرانی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔ 2018تک یہ سفر جاری رہا ۔۔۔ 2018میں 13ویں ترمیم لائی گئی ۔۔۔۔۔ پہلے 52نکات کشمیر کونسل کے پاس تھے ، 13ویں ترمیم کے بعد مزید اختیارات ہم سے چھین لیے گئے ، 13ویں ترمیم کا واحد کریڈٹ ریونیو جمع کر کے ایک بجٹ میں منتقل کرنے کا ہے ، وسائل جو آپ کی معیشت ، خود انحصاری کا ذریعہ ہوتے ہیں وہ آج بھی حکومت آزادکشمیر کے پاس نہیں ، حضرت گنڈا پور کی شکل میں پر ایک ایسی روح مسلط کر دی گئی جن کا یہ فرمانا ہے کہ نیلم جہلم کے حوالے سے حکومت آزادکشمیر سے معاہدہ کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔

اس خطہ کو آزادکشمیر کہاجاتا ہے ، یہاں ایک وزیراعظم آج کل بھی ہے جسے لوگ فاروق حیدر کے نام سے جانتے ہیں ، یہاں ایک سپریم کورٹ ہے ، ایک ہائی کورٹ ہے ، ایک قانون ساز اسمبلی ہے ، لیکن اس خطہ کے پانیوں پر یہاں کی حکومت اور لوگوں کو اختیار نہیں ، میں پورے دعوے سے کہتا ہوں آزادکشمیر کے وزیراعظم کے پاس اہم عہدوں پر اپنی مرضی کے انتظامی آفیسرز کی تقرری کے مشروط اختیار ہیں۔
کلیئرنس ہوتی ہے تو نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے ۔ کم از کم 1947سے قبل کے حکمرانوں کو انتظامی آفیسرز لگانے کے لیے برطانیہ سے اجازت نہیں لینا پڑتی تھی ۔

سیکرٹری ، ڈی جی ، ڈی آئی جی ، کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز لگانے کے اختیارات آزادکشمیر کے وزیراعظم کے پاس مشروط اس لیے کہ عنایت کیا گیا عہدہ کبھی بھی با اختیار نہیں ہوتا۔ دور نہیں جاتے 2011 کی بات ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے لطیف اکبر کو صدر آزادکشمیر بنانے کا فیصلہ کیا ، گرین سگنل ملنے پر لطیف اکبر آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد کی طرف روانہ ہوئے کہ اچانک فیصلہ تبدیل ہوا، لطیف اکبر کا مظفرآباد پہنچنے پر شاندار استقبال ہو رہا تھا ، 2011سے 2016 تک وزیر تعلیم آزادکشمیر کے فرائض سر انجام دینے والے میاں عبدالوحید بھی لطیف اکبر کے ساتھ استقبال سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ اس پورے گروپ میں میاں عبدالوحید واحد آدمی تھے جنہیں معلوم تھا کہ فیصلہ بدل چکا ہے ، لطیف اکبر نہیں سردار یعقوب صدر آزادکشمیر ہوں گے۔ با خبر سیاستدان شاہ غلام قادر کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ صدر آزادکشمیرلطیف اکبر نہیں ہوں گے ، جب عوام کے حق حکمرانی کے نام پر اقتدار پسند کی بنیاد پر دیے جائیں تو اقتدار لینے والوں کو اپنی حیثیت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ عنایت کب، کہاں، کیسے اور کس طرح ہوئی۔

آزادکشمیر میں بیڈ گورننس ،لوگوں سے بے رخی، ان کے مسائل کے حل میں لاپرواہی، اسی ماحول کی وجہ سے ہے۔ریاستیں یا حکومتیں فوٹو سیشن اور اخباری بیانات سے نہیں چلتیں اس کے لیے اختیار ناگزیر ہوتے ہیں ، آج ہم ایک ایسے ماحول میں زندہ ہیں جہاں وہ سارے عہدے اور تقریباً وہ سارے ادارے موجود ہیں جو ایک حکومت(اتھارٹی) کے لیے لازم ہیں ۔۔۔ مگر بے اختیار۔۔۔۔ سو بے اختیاری کے ماحول میں وہ اختیارات استعمال ہوتے ہیں جو ذاتی مفادات پر مبنی ہوں یہی کچھ آزادکشمیر میں ہو رہا ہے ۔۔۔ تنزلی کے اس سفر کا اختتام ۔۔۔کب ہو گا ابھی اس خطہ کے لوگ اس کے لیے تیار نہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے