پہلے میٹھا خربوزہ، باقی بعد میں دیکھا جائے گا!

بزرگوں سے سننے میں آیا ہے کہ دو قسم کے لوگ بہت خوش قسمت ہیں، ایک وہ جنہیں زندگی میں سچا پیار نصیب ہو اور دوسرے وہ جن کا خربوزہ میٹھا نکل آئے۔ جن دنوں عارف والا سے خربوزوں کی فصل مارکیٹ میں آتی تھی اُن دنوں یہ ’’خوش نصیبی‘‘ بہت عام تھی۔ تقریباً ہر خربوزہ میٹھا نکلتا تھا۔ چنانچہ میرے سمیت اور بہت سے لوگ اِسے پھلوں میں شمار کرنے لگے۔ اب تو یوں ہے کہ جسے کسی بھی وجہ سے خربوزہ کھلانا پڑ جائے اس کی کنپٹی پر پستول رکھ کر اُس سے منوانا پڑتا ہے کہ وہ پھل کھا رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر واقعی خربوزہ رنگ پکڑنے لگتا ہے چنانچہ اُن میں پھیکے اور بدمزہ ہونے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ مجھے اب سمجھ آئی ہے کہ خربوزے سے پہلے ’’خر‘‘ کیوں لگانا پڑتا ہے لیکن دکاندار ہیں کہ پوری ڈھٹائی سے باآوازِ بلند انہیں ’’کھنڈ کھلونے‘‘(شکر سے بنے ہوئے کھلونے) قرار دے رہے ہوتے ہیں۔

ایک طویل عرصے سے میٹھے خربوزے کی شکل نہیں دیکھی تھی چنانچہ گزشتہ روز اس کی یاد نے زور مارا تو میں ایک دکان پر گیا اور دکاندار سے پوچھا ’’خربوزے میٹھے بھی ہیں کہ نہیں؟‘‘

اس نے پورے اعتماد سے جواب دیا ’’جناب! شہد سے زیادہ میٹھے!‘‘

میں نے کہا ’’ٹرائی کراؤ، مگر ذرا چھری صاف کرلینا‘‘ اس نے میری اس ہدایت پر پوری طرح عمل کیا یعنی اپنی میلی دھوتی کے پلّو سے چھری اچھی طرح صاف کی (وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اس پلّو سے اپنی ناک پونچھ چکا تھا) اور خربوزے کی ایک قاش میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے بادل نخواستہ اسے چکھا تو میرے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا۔ میں نے کہا ’’یار! کوئی اور خربوزہ دکھاؤ مگر اس سے پہلے یہ چھری مجھے دو، میں اسے خو د صاف کروں گا‘‘۔ اس نے میری وضع قطع سے مجھے ایک معزز شخص جانا اور کہا ’’جناب! آپ کیوں صاف کریں گے، میں کس لئے ہوں؟‘‘ اور ایک بار پھر دھوتی کے پلّو سے چھری اچھی طرح ’’صاف‘‘ کر کے میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے قریب دھری پانی کی بالٹی میں سے کچھ پانی مستعار لے کر چھری دھوئی اور پھر یہ چھری اسے واپس کر دی۔ صفائی پسند دکاندار نے خربوزہ کاٹنے سے پہلے ضروری سمجھا کہ اسے ایک بار پھر صاف کر لیا جائے چنانچہ اس نے میرے ’’نہ نہ ‘‘ کرتے ہوئے بھی اپنی دھوتی کے پلّو سے یہ کام پوری پھرتی اور خوش اسلوبی سے انجام دے ڈالا اور پھر خربوزہ کاٹ کر اس کی ایک قاش میری طرف بڑھائی۔ یہ خربوزہ پہلے خربوزے سے بھی زیادہ پھیکا تھا۔ میں نے دکاندار کو دو خربوزوں کا ہرجانہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا!

اس سے اگلے روز میں ایک بار پھر میٹھے خربوزے کی تلاش میں گھر سے نکلا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ دکاندار کو چھری ’’صاف‘‘ کرنے کی زحمت دوں اور نہ ہی میں ان خربوزوں کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار تھا جو میں نے وہیں چھوڑ جانا تھے۔ چنانچہ میں ایک دکاندار کے پاس گیا جس نے ’’کھنڈ کھلونے‘‘ کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ وہاں دو تین گاہک پہلے سے موجود تھے، میں ان کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ رخصت ہو گئے تو میں نے دکاندار کو مخاطب کیا اور سرگوشی کے انداز میں کہا ’’مجھے ایک ٹونے ٹوٹکے کے لئے بیس کلو خربوزے درکار ہیں مگر عامل نے شرط عائد کی ہے کہ یہ بالکل پھیکے ہوں، اگر ان میں سے ایک بھی میٹھا نکل آیا تو عمل الٹا پڑ جائے گا، کیا تم بتا سکتے ہو کہ شرطیہ پھیکے خربوزے کہاں سے مل سکتے ہیں؟‘‘

اس پر دکاندار نے میرے کان میں جوابی سرگوشی کی ’’یہیں سے ملیں گے جناب! اور کہاں سے ملنے ہیں؟ یہ لیں چھری اور سارا سودا چیک کر لیں۔ اگر ایک خربوزہ بھی میٹھا نکل آئے تو جو چور کی سزا، وہ میری سزا!“ یہ سن کر میں وہاں سے جانے لگا تو دکاندار کو شک گزرا کہ شاید مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا بلکہ اس نے صاف لفظوں میں یہ بات مجھ سے پوچھ بھی لی۔ میں نے جواب دیا ’’مجھے تم پر یقین ہے تبھی تو خرید نہیں رہا!‘‘ اس پر وہ مجھے خاصا پریشان دکھائی دیا، وہ شاید ایک شریف آدمی سے اس دھوکہ دہی کی توقع نہیں کر رہا تھا۔

میں نے اپنی اس الجھن کا ذکر اپنے ایک خربوزہ شناس دوست سے کیا اور اس کا حل پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم خربوزہ سونگھ کر خریدا کرو۔ اگر اس میں خوشبو ہے تو یہ اس کے میٹھا ہونے کی ایک نشانی ہے۔ ایک نشانی اس کے علاوہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اس کی پشت پر جو نشان بنا ہوتا ہے وہ نشان جتنا بڑا ہو گا، خربوزہ اتنا ہی میٹھا نکلے گا۔ چنانچہ میں نے اس نسخے پر بھی عمل کر کے دیکھا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ خربوزے سے خوشبو کی ’’لپٹیں‘‘ آرہی تھیں اور اس کی پشت پر بنا نشان اس کے عالی نسب ہونے کا پتہ بھی دے رہا تھا لیکن کھول کر دیکھا تو اندرسے وہی پھیکا اور بدمزہ خربوزہ نکلا۔

یہی تجربہ بار بار مجھے انسانوں کے حوالے سے بھی ہوا ہے۔ دیکھنے میں خوش رنگ اور خوش نسب! لیکن قریب جاؤ تو بدبو کے بھبکوں سے پالا پڑتا ہے۔ چنانچہ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میٹھے خربوزوں اور اچھے انسانوں کی تلاش میں اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔ اس حوالے سے میرے ایک دوست نے مشورہ دیا ہے کہ دوسروں میں اچھائیاں تلاش کرنے کی بجائے تم خود اچھا انسان بننے کی کوشش کیو ں نہیں کرتے۔ دوست کا مشورہ درست ہے لیکن اگر خربوزہ میٹھا نہیں نکل سکتا تو مجھے اچھا انسان بننے کا کیا تُک ہے؟ کوشش کر کے دیکھ لوں گا۔ دعا کریں یہ ناممکن سا کام کبھی ممکن ہو سکے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے