یہ ٹیپو سلطان کا دور نہیں

منی رتنم ساؤتھ انڈیا کا نامور فلم ساز‘ ڈائریکٹر اور اسٹوری رائٹر ہے‘ آپ نے اگر روجا‘ بمبے اور دل سے دیکھی ہوں تو آپ منی رتنم کے کام اور اسٹائل سے اچھی طرح واقف ہوں گے‘ یہ چنائی میں رہتا ہے‘ عمر 63 سال ہے اور زیادہ تر تامل زبان میں فلمیں بناتا ہے‘ 6 نیشنل فلم ایوارڈز اور تین بالی ووڈ فلم فیئر ایوارڈز حاصل کر چکا ہے اور حکومت اسے پدماشری سے بھی نواز چکی ہے۔

اے آر رحمن جیسا موسیقار اور ملک کے چوٹی کے اداکاراس کی فلموں میں کام کرنا اعزاز سمجھتے ہیں‘ منی رتنم نے 2017میں کاترو ویلیدائی (Kaatru Veliyidai) کے نام سے تامل فلم بنائی‘ یہ فلم کارگل کے پس منظر پر بنائی گئی اور اس نے دو نیشنل ایوارڈز حاصل کیے‘ رتنم اس فلم کا رائٹر بھی تھا‘ ڈائریکٹر بھی اور پروڈیوسر بھی۔

کاتروویلیدائی کی کہانی بھارتی پائلٹ کے گرد گھومتی ہے‘ پائلٹ کارگل کی جنگ کے دوران جہاز اڑاتا ہے‘ آزاد کشمیر کے علاقے میں آتا ہے‘پاکستانی فوج طیارے کو ہٹ کرتی ہے اور پائلٹ خود کو ایجیکٹ کر لیتا ہے‘ وہ زمین پر اترآتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے وہ پاکستانی سرزمین پر آ گرا ہے‘ پاکستانی فوج اسے حراست میں لے لیتی ہے اور راولپنڈی منتقل کر دیتی ہے‘ فلم میں پائلٹ کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے دکھایا جاتا ہے‘ وہ پائلٹ بعد ازاں دو قیدی ساتھیوں کے ساتھ فرار ہوتا ہے اور انتہائی مشکل حالات سے گزر کر بھارت واپس پہنچ جاتا ہے۔

یہ فلم پچاس فیصد سچے واقعات پر مبنی تھی‘ پاکستان نے کارگل جنگ کے دوران کام بام پتی ناجی کیٹاراؤ نام کا ایک بھارتی پائلٹ پکڑا تھا لیکن وہ 8 دن بعد بھارت کے حوالے کر دیا گیا‘فلم کی کہانی اس پائلٹ کے اردگرد گھومتی ہے‘ فلم میں پائلٹ کا رول کارتھک سیوا کمار نے ادا کیا ‘ سیوا کمار اور منی رتنم یہ دونوں بھی تامل ہیں اور فلم کے ایڈوائزر ایئر مارشل ریٹائرڈ سمہاکتی ورتھامن بھی تامل تھے۔

یہ کہانی کا ایک حصہ تھا‘ آپ اب دوسرا حصہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ بھارتی طیاروں نے منگل 26 فروری کو جبہ کے مقام پر صبح چاربجے بم گرائے‘ یہ بم آنے والے دنوں میں پاک بھارت ٹینشن کا ذریعہ بن گئے‘ اگلے دن پاک فضائیہ نے بھارت کے دوطیارے مار گرائے‘ ایک طیارے کا ملبہ اور پائلٹ مقبوضہ کشمیر میں گرا جب کہ دوسرا طیارہ پاکستانی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا‘ طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کو مقامی لوگوں نے پکڑ لیا‘ وہ اسے تشدد کر کے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پاک فوج کے جوان پہنچ گئے اور یوں ابھی نندن کی جان بچ گئی۔

پائلٹ دو دن پاکستان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوا اور یہ یکم مارچ کوبھارت کے حوالے کر دیاگیا‘ یہ کہانی کے دوسرے حصے کا پہلا حصہ تھا‘دوسرے حصے کا دوسرا حصہ ابھی نندن کا والد تھا‘ ابھی نندن اس ایئر مارشل ریٹائرڈ سمہاکتی ورتھامن کا بیٹا ہے جس نے-17 2016میں کاترو ویلیدائی کی شوٹنگ کے دوران بطور ایڈوائزر کام کیا‘ایئر مارشل ورتھامن نے فلم کے ہیرو سیواکمار کو پائلٹس کی زندگی‘ ٹریننگ اور مووز کے بارے میں ٹرینڈ کیا تھا۔

یہ اسے بتاتا رہا پائلٹ چلتے‘ پھرتے اور کھاتے کیسے ہیں‘ یہ طیارے میں سوار کیسے ہوتے ہیں‘یہ طیارہ اڑاتے کیسے ہیں اور اگر طیارہ گر جائے تو پائلٹ اپنی جان کیسے بچاتے ہیں؟سیوا کمار نے ایئر مارشل ورتھامن کی ٹریننگ کی مدد سے فلم میں پائلٹ کا کردار نبھایا اور کمال کر دیاا ور آپ پھر ٹریجڈی بھی ملاحظہ کیجیے‘ فلم کے اسی ایڈوائزر ایئرمارشل کا اپنا بیٹا سال بعد فلمی انداز میں پاکستانی سرزمین پر گرا اور پاکستانی فوج کی حراست میں آ گیا‘ ابھی نندن 16 سال سے بھارتی فضائیہ کا حصہ ہے‘ عمر 34 سال ہے اور یہ تامل ناڈو کے ڈسٹرکٹ تھیروپانامورا کا رہنے والا ہے‘ والد سمہاکتی ورتھامن فائیٹر پائلٹ تھا اور یہ بھارت کی ایسٹرن ایئر کمانڈ کا چیف رہ چکا تھا‘ ابھی نندن کے والدین اور گاؤں کے لوگ فلم کے کلائمیکس سے واقف تھے۔

پائلٹ کے گرنے کے بعد کے واقعات بھی ان کے ذہن میں تھے لہٰذا یہ ڈر گئے‘ ان کا خیال تھا ابھی نندن کو پاکستان کی حراست میں خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا‘ گاؤں کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر پائلٹ کی ہجوم کے ہاتھوں گرفتاری‘ مار پیٹ ‘ آنکھیں باندھ کر فوجی جیپ میں سوار کرنے اور پھر ہجوم کے جیپ کے پیچھے نعرے لگانے کے مناظر دیکھے تو ان کے دل اچھل کر حلق میں آ گئے اور یہ لوگ مندروں میں ابھی نندن کی رہائی کے لیے گھنٹیاں بجانے لگے‘ عمران خان نے ابھی نندن کی رہائی کا اعلان کیا تو ان لوگوں کی جان میں جان آئی اور یہ ایک ایک منٹ گن گن کر گزارنے لگے‘ یکم مارچ کی رات 9بجے پائلٹ نے واہگہ بارڈر کراس کیاتو لوگوں نے گاؤں میں ڈھول تاشے بجانا شروع کر دیے۔

فلمی کہانی کاترو ویلیدائی کا کلائمیکس ابھی نندن کی بحفاظت واپسی سے ذرا سا مختلف تھا‘ فلم میں پائلٹ شدید تشدد کا نشانہ بنتا رہا اور پھر حوالات توڑ کربھارت پہنچا جب کہ ابھی نندن کو پاکستانی وزیراعظم نے گڈوِل جیسچرکے تحت تیسرے دن ہی بھارت کے حوالے کر دیا لیکن سوال یہ ہے انڈیا اگر اس کے باوجود باز نہیں آتا‘ یہ پاکستان کی عاجزی کو کمزوری سمجھنا بند نہیں کرتا‘ یہ امن کی خواہش کو پاکستان کی فراخ دلی نہیں سمجھتا اور یہ ٹینشن اگر اسی طرح بڑھتی رہتی ہے تو کیا پاکستان مستقبل میں بھی پائلٹوں کو اسی عزت اور احترام کے ساتھ فوجی یونٹوں میں رکھے گا‘ یہ انھیں ان کی مرضی کی چائے پلائے گا‘ ان کی مرضی کا کھانا دے گا‘ انھیں جاگنگ اور ویٹ لفٹنگ کا موقع فراہم کرے گا اور کیا یہ آخر میں انھیں خوبصورت نیلا سوٹ پہنا کر بھارت کے حوالے کرے گا؟

جی نہیں! اگر بھارت کا جنگی جنون ختم نہ ہوا‘ یہ اگر نارمل ہمسایہ نہ بنا تو پاکستان اگلے پائلٹس کے ساتھ ابھی نندن جیسا سلوک نہیں کرے گا‘یہ پھر کاتروویلیدائی کے پائلٹ کی طرح ہجوم سے ماربھی کھائیں گے اور یہ جیلوں میں بھی اذیت اٹھائیں گے‘ بھارت کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے زندگی اور فلم میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ فلم میں ڈائریکٹر جب چاہتا اور جیسا چاہتا ہے کہانی کو ویسا ٹو ِسٹ مل جاتا ہے لیکن زندگی میں زیادہ ٹو ِسٹ نہیں ہوتے‘ زندگی کے ہیرو اور ولن واقعات ہوتے ہیںاور کردار ان واقعات کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں‘ واقعات انھیں جس طرف چاہیں اور جہاں چاہیں لے جائیں ریاستوں کے پاس چپ چاپ دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ یہ قدرت کا خصوصی کرم تھا پاکستان اور بھارت کی موجودہ ٹینشن صرف ابھی نندن تک محدود رہی ورنہ بھارت نے پاکستان کی سرحد پر9 میزائل نصب کردیے تھے اور پاکستان نے مقابلے کے لیے اڑھائی ہزار کلو میٹر تک وار کرنے والے 14 میزائل لگا دیے تھے اور یہ پورا خطہ27 فروری کی رات 23 میزائلوں کے رحم و کرم پر تھا۔

اگر خدانخواستہ کوئی ایک شخص شرارت کر دیتا یا سافٹ ویئر کے اندر کوئی گڑبڑ ہو جاتی اور کوئی ایک میزائل چل جاتا تو پھر انسانیت کو اس خطے کی راکھ سمیٹنے کے لیے کم از کم سو سال لگ جاتے‘ یہ خطہ خون‘ ہڈیوں اور جلی ہوئی لاشوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بن جاتا‘اس کے بعدپاکستان اورانڈیا کے ایٹم بم فضا میں ایٹمی بادلوں کی چھتری بنا دیتے‘ یہ چھتری ہوا میں معلق ہو جاتی اور دنیا کا جو ملک زمین کی حرکت کے ساتھ اس چھتری کے نیچے آجاتاوہ بھی تابکاری کا نشانہ بن جاتا اور یوں آدھی دنیا مر جاتی اور باقی آدھی دنیا کینسر میں مبتلا ہو جاتی‘ ہمالیہ کی ساری برف بھی پگھل جاتی‘ سمندروں کی سطح بلند ہو جاتی اور دنیا کے 58 ملک پانی کے اندر ڈوب جاتے‘ کرہ ارض پر صرف دو ماہ کی خوراک موجود ہے۔

تابکاری چھتری کی وجہ سے انسان 30 سال تک زمین پر اناج نہ اگا سکتا چنانچہ جو مر جاتے وہ سکھ پا جاتے اور جو پیچھے رہ جاتے وہ موت کی دعائیں کرکر کے زندگی گزار تے‘ حیات فلم نہیں ہوتی آپ جس کا اسکرپٹ جب چاہیں تبدیل کر لیں‘ زندگی صرف زندگی ہے اور یہ بار بار ریہرسل کی اجازت نہیں دیتی‘ زندگی کی ایک غلطی انسان‘ ملک اور بعض اوقات پوری دنیا کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے۔ہم ہمیشہ 313‘ کربلا اور ٹیپو سلطان کی مثال دیتے ہیں۔

بھارت ہمیشہ ہمیں 1971 کی یاد دلاتا ہے لیکن ہم یہ مثالیں دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں ماضی تلواروں‘ تیروں‘ گھوڑوں‘ رائفلوں اور توپوں کا دور تھا‘ وہ ادوار دو تین ہزار لاشوں کے بعد ختم ہو جاتے تھے لیکن ہم اس وقت ایٹم بموں کے سائے میں بیٹھے ہیں‘ ایک سکینڈ لگے گا اور کوئٹہ سے کلکتہ تک کچھ نہیں بچے گا اور پھر اس کے بعد ٹیپو سلطان بھی راکھ بن جائے گا اور اس کی کہانیاں لکھنے‘ بولنے اور سنانے والے بھی‘ ہم ٹیپو سلطان کو اس لیے یاد کرتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کے بعد اس کا نام لینے والے مؤرخ بچ گئے تھے لیکن ہم اگر 2019 میں باز نہ آئے تو پھر 2020میں ٹیپو سلطان کا نام لکھنے اور سنانے والے بھی نہیں ہوں گے۔

یہ خطہ دنیا کا مظلوم ترین خطہ ہے‘ اس کے ایک طرف پاگل نریندر مودی بیٹھا ہے اور دوسری طرف ناتجربہ کار عمران خان اور درمیان میں سوا ارب لوگ جنگ کو کھیل سمجھ کر تالیاں بجا رہے ہیں‘ یہ لوگ23 ایٹمی میزائلوں کو کاترو ویلیدائی جیسی فلم سمجھ رہے ہیں ‘ ان کا خیال ہے ہیرو پائلٹ جیل توڑ کر اپنی ہیروئن تک پہنچ جائے گا‘ یہ لوگ جانتے ہی نہیں ہیں ہم موت کے ایک ایسے آتش فشاں پر بیٹھے ہیں جواگر پھٹ گیا تو ہماری راکھ تک نہ ہوگی راکھستانوں میں اورجواگر ابل گیا تو پھرکوئٹہ بچے گا اور نہ کلکتہ‘ ہم کہانیوں میں بھی باقی نہیں رہیں گے چنانچہ سنبھل جائیں یہ ٹیپو سلطان کا دور نہیں‘ ہم ایٹم بم پر بیٹھ کر باربی کیو پارٹی کر رہے ہیں اور ہماری پارٹی پوری دنیا کو سلگتا ‘ جلتا کوئلہ بنا دے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے