جموں وکشمیرکی قومی آزادی کی تحریک اورفکری ابہامات

حاکم طاقت محکوم قوم پر حاکمیت برقرار رکھنے کیلئے جہاں فوج،انتظامیہ اور دیگر وسائل زیر صرف لاتی ہے۔ وہیں پر حاکم قوم کو اپنی حاکمیت کو جواز فراہم کرنے اور محکوم قوم کو بغاوت سے روکنے کیلئے فکری مبادیات بھی درکار ہوتی ہیں۔ بعینہ ایسی ہی صورتحال ہمیں ریاست جموں کشمیر کے معاملے میں در پیش ہے۔ جہاں پر ہر دو ممالک انڈیا و پاکستان نہ صرف اپنی بھرپور ریاستی مشینری کے ذریعے براجمان ہیں بلکہ دونوں ممالک ریاست میں اپنی موجودگی کو جوازفراہم کرنے، ریاست کو اپنا جزو لا ینفک ثابت کرنے اور ریاست کے اندر کسی ممکنہ بغاوت کے سدباب کیلئے مختلف ابہامات کے بیج بورہے ہیں۔ آج ہم اس فکری اساس کو زیر بحث لائیں گے جس کی بنیاد پر پاکستان ریاست کو اپنی شہ رگ تصور کرتے ہوئے اس کے اپنے ساتھ دائمی الحاق کا نقیب ہے۔

ریاست جموں کشمیر کی بالعموم اور بالخصوص پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کی آزادی پسند پارٹیاں جب ریاست کے مسلم و غیر مسلم عناصر کے اشتراک پر اپنی قومی تحریک کو استوار کرتے ہوئے وطن کی آزادی کی جدوجہد کرتی ہیں تو مختلف فکری ابہامات کی ترویج کر کے عوام کی وسیع پرتوں کو اس وطنی آزادی کی تحریک سے دور رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ گزشتہ ستر سالوں سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بالخصوص اور بالعموم ریاست کے دیگر حصوں میں ازبس یہ فکر منتقل کی گئی ہے کہ جموں کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ جس کی بناء پر اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ باالفاظ دیگر ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی جو اساس قرار دی جاتی ہے وہ اسلام یعنی مذہب ہے۔

یہ دو قومی نظریے کی پروردہ وہ سوچ ہے جس میں مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے میں ایک قوم تصور ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا واحد فریضہ امت مسلمہ یا ملت کی تکمیل ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسی فرض کے ذیل میں ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے اپنے ملّی فریضے کی تکمیل کریں۔ یہ فکر غیر مسلموں کے ساتھ اشتراک کر کے وطنی قومیت (یہاں قومیت سے مراد ایک وطن کے اندر رہنے والے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جن میں وجہ اجتماعیت جغرافیائی وحدت ہے) تشکیل دینے کے سخت خلاف ہے اور ایسی کوشش کو مذہب مخالف تصور کرتی ہے۔ یہ وہ فکری تصورات ہیں جن کی بناء پر ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی کی تحریک جو تمام قومی اجزاء (تمام ریاستی اکائیوں اور مختلف مذاہب کی مساوی شرکت) پر مشتمل ہو گی کی ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔

اگراس فکر کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں چھپے تضادات کا تدارک مشکل نہیں۔ اس فکر کے پیروکار قوم کو ملّت کے مترادف تسلیم کرتے ہیں۔ یعنی قوم محض ایک مذہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جو کہ عربی لغت و قرآنی فھم دونوں کے اعتبار سے درست نہیں۔ ملّت دین ،شریعت یا طریقے کو کہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ ایک مذہبی اکائی کا اظہار ہے۔ ملّت ایک بین الاقوامی رشتہ ہے۔ کرہ ارض میں جتنے انسان بھی ایک دین، شریعت یا طریقے پر کاربند ہیں وہ ایک ملّت ہیں۔ جیسے ملت اسلامیہ ، ملت نصرانیت یا ملت یہودیت ۔اس عالمگیررشتے میں منسلک ہونے کیلئے وطن، قوم، زبان، رنگ، نسل غرض کسی شے کی قید نہیں۔ ناگزیر ہے تو ایک دین،شریعت یا طریقے پر کاربند رہنا۔

اسی بناء پر خواہ افریقہ کا کوئی حبشی النسل ہو یا یورپ کی سرزمین میں بسنے والا کوئی گوری چمڑی والا، جزائرالعرب سے کوئی عرب ثقافت کا حامل فرد ہو یا ایرانی تہذیب و تمدن میں پلنے والا انسان، ہندوستان کے عظیم تہذیبی ورثے میں رچابسا کوئی فرد ہو یا چین کی مخصوص سماجی وضع قطع کا پروردہ انسان اگر وہ ایک دین، شریعت یا طریقے پر کاربند ہیں تو وہ ایک ملّت شمار ہوں گئے۔ جبکہ عربی لغت میں لفظ قوم مردوں یا مردوں اور عورتوں کے ایسے گروہ کیلئے استعمال ہوا ہے جس میں کوئی وجہ اجتماعیت ہو۔ قرآن مجید میں بیشمار مقام پر لفظ قوم مستعمل ہے اور اس کے استعمال میں ماننے اور نہ ماننے والوں کا فرق روا نہیں رکھا گیا۔
جیسا کے قرآن میں ارشاد ہے !

• تمھارے لیے پیروی نیک موجود ہے ۔ابراہیم میں اور ان لوگوں میں جو ابراہیم کے ساتھ تھے۔ جب انھوں نے کہا اپنی قوم سے کہ ہم بے تعلق ہیں، تم سے اور ان چیزوں سے جن کو تم پوجتے ہو،اللہ کے سوا ہم منکر ہوئے تم سے اور ظاہر ہو پڑی ہم میں اور تم میں دشمنی اور بغض ہمیشہ کے لیے جب تک ایمان نہ لاؤ۔ ایک اللہ پر، مگر ہاں ایک کہنا ابراہیم کا۔ (پ ۲۸ع۷)

• کہہ دو کہ اے میری قوم!تم اپنی جگہ پر عمل کرو،میں اپنی جگہ پر عمل کرتاہوں، عنقریب جان لو گے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے۔ (پ۱۲ع۸)
• اناارسلنا نوحا الی قومہ۔(پ۲۹ع۹)

یہ تمام اورایسی بے شمار آیات اس بات کا پرتو ہیں کہ قرآن مجید نے لفظ قوم محض مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن مجید نے مسلم اور غیر مسلموں کو (بہ نسبت ان کے علاقے یا وطن) ایک قوم کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ اس بیان کا مقصد یہ واضح کرنا تھاکہ قوم اور ملّت کو ایک گرداننا قطعی درست نہیں۔ ملّت کی تشکیل کیلئے ناگزیر ہے کہ سب ایک دین پر کاربند ہوں۔ مگر قوم کے لیے ایسی کوئی قید نہیں۔ مختلف مذاہب کے پیروکار خود قرآنی نقطہ نظر سے ایک قوم ہو سکتے ہیں۔

قوم اور ملّت کے اس فرق کی وضاحت کے بعد وطنی قومیت اور ملّت اسلامیہ کے باہم تعلق کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں۔ جیسے کیاوطنی قومیت اور ملّت اسلامیہ میں کوئی تعارض ہے؟ کیا وطنی قومیت کی تشکیل خلاف اصولِ اسلام ہے؟ کیا ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کیلئے لازم ہے کہ وہ ملّت اسلامیہ کیلئے اپنی وطنی قومیت سے انکاری ہو جائیں؟ ان سب پیچیدہ سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔

میثاق مدینہ کا معاہدہ، جس میں غیر مسلموں کو مسلمانوں کے ساتھ ایک جماعت اور قوم شمار کیا گیااور جو للیھود دینھم وللمومنین دینھم کے عظیم اصول سے مامور ہے، بڑے صریح انداز میں ثابت کرتاہے کہ ایک سرزمین میں غیر مسلم عناصر سے مل کر متحدہ قومیت کو تشکیل دیاجا سکتا ہے۔ رہی بات وطنی قومیت اور ملّت اسلامیہ کے باہم تعلق کی تو یہ قطعاً لازم نہیں مسلمان ملّت اسلامیہ کے عالمگیر رشتے سے منسلک ہونے کیلئے اپنے قومی اور وطنی وجود سے انکاری ہو جائیں۔ برعکس اس کے وہ اپنے قومی اور وطنی وجود کا اقرار کر کے اس بین ا لاقومی رشتے سے جڑ سکتے ہیں۔

یہی وہ اصول تھے جن کی بناء پر جمیعت علماء ہند کانگریس کے پلیٹ فارم کو برو ئے کار لا کر تمام ہندوستانیوں کے اشتراک سے انگریز سامراج کو بے دخل کر کے ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کی تشکیل کیلئے گامزن تھی۔ انگریز سامراج ہندوستان کا خام مال لوٹ کر، ہندوستان کو اپنی مصنوعات کیلئے بطور منڈی تصرف میں لا کر اور ہندوستان کی افرادی قوت کو اپنی جنگی ضرورتوں کے لئے استعمال کر کے ہندوستان کا بدترین استحصال کر رہا تھا اور ہندوستان کے اندر و باہر ہندوستانیوں کی ذلت و پستی کا باعث تھا۔ انگریز سامراج کو بے دخل کرکے ذلت و غلامی کے اس طوق کو گلے سے اتار پھینکنے کا سب سے موثر طریقہ یہ تھا کہ تمام ہندوستانی عناصر کو یکجا کر کے انگریز مخالف جدوجہد کی جائے۔ مگر جہاں ہندوستان کے مسلم و غیرمسلم اشتراک کر کے آزاد ہندوستان کیلئے جدوجہد کر رہے تھے وہاں مسلمانوں کا فریضہ محض ملّت اسلامیہ کی تشکیل قرار دے کر ہندوستانیوں کو اس وطنی آزادی کی جدوجہد سے بے عمل کرنے اور ان کے دلوں میں اس عظیم جدوجہد کیلئے منافرت پیدا کرنے والے عناصر بھی موجود تھے۔ اس بے عملی و منافرت کا انگریز سامراج کو کتنا فائدہ ہوا ہو گا قیاس کرنا مشکل نہیں۔

کل انگریز سامراج کے دشمنوں اور متحدہ ہندوستانی قومیت کا پرچار کرنے والوں کوغدار ملّت و مذہب اور ایجنٹ کے القابات سے نوازا گیا۔ وطنی قومیت کو خلافِ اسلام اور مسلمانوں کے لئے اندوہناک ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا اور شیخ الحدیث مولانا حسین احمد مدنی جیسی سربرآوردہ شخصیت کیلئے "چہ بے خبر زمقام محمدﷺعربی است” جیسے فقرے کسے گئے۔

مگر واقعہ یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد کروڑوں مسلمانوں کا ہندوستان میں رک جانا(جو تعداد آج تیس کروڑ سے تجاوز کر چکی)، محمد علی جناح کا تقسیم کے فوراً بعد ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوستانی حکومت کا وفادار رہنے کا مشورہ دینا اور ۱۹۷۱ء میں بنگال کا پاکستان سے الگ ہو کر ایک علیحدہ نیشن اسٹیٹ قائم کرنا یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ مسلمانوں میں ایک ملّی رشتہ تو موجود ہے مگر ان میں ایک وطنی اور قومی رشتہ بھی موجود ہو لازم نہیں۔ مزید برآں اگر مسلم وغیر مسلم کے اشتراک سے وطنی قومیت تشکیل دینا درست نہیں تو کیا آج پاکستان کے غیر مسلم پاکستانی نہیں؟ پھر آج ہندوستان کے مسلمانوں کی قومیت کیا ہو گی؟وہ خود کو ہندوستانی کہنے میں حق بجانب ہیں یا نہیں؟ یا خود کو ہندوستانی کہنے سے وہ دین قیم سے پرے ہٹ گئے اور انھیں اب خارج از اسلام تصور کیا جائے؟

ملّت اسلامیہ کا تصور خود پاکستانی ریاست کے وجود کیلیے بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ مسلمان صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ آج پاکستان خود ایک نیشن اسٹیٹ کے طور پر آپریٹ کر رہا ہے۔ گو کہ اس کی سرحدیں دو اسلامی ممالک ایران اور افغانستان سے منسلک ہیں مگر کبھی پاکستانی ریاست نے خود کو ایران یا افغانستان میں ضم کر کے ملّت اسلامیہ کو قوت بہم پہنچانے کی سعی نہیں کی۔ پھر ریاست جموں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق امت مسلمہ کیلیے لازم کیونکر ٹھہرا؟ حق تو یہ ہے کہ آج پاکستان بھی دنیا کی دیگر ریاستوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کو اپنائے کھڑا ہے۔ فرق ہے تو بس اتنا کہ ریاست کے نام کے ساتھ اسلام کا سابقہ موجود ہے اور یہاں کا غیر مسلم ثانوی حیثیت کا شہری ہے۔

منجملہ مادر وطن ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کا پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ کرہ ارض میں بسنے والے ہر مسلمان کے ساتھ ملّی رشتہ ہے۔ مگر ہمارا ہماری ریاست کے غیر مسلموں کے ساتھ قومی اور وطنی رشتہ ہے اور آزادی کی اس جدوجہد میں وطنی رشتہ ملی رشتے پر مقدم ہے۔ اور جو کوئی بھی ہماری قومی آزادی کی جدوجہد کو ملّت اسلامیہ، خلافت، پان اسلام ازم یا اس قبیل کی کسی بھی اصطلاح کے نام پرسبوتاژ کرے گا وہ آخری تجزیے میں سامراج کا آلہ کار بن کرنہ صرف اس کے مفادات کی تکمیل بلکہ اپنی قومی غلامی کو طول دینے کے جرم کا مرتکب ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے