موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں، کسی نے آج تو کسی نے کل جانا ہے، میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ جیل میں مرگیا تو کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ نہ ہمالہ روئے گا اور نہ وہ قومی اعزاز کیساتھ دفن ہوگا مگر قوم کی زخمی روح کو ایک گھائو اور ضرور لگے گا، بھٹو کو جیل میں سزائے موت ملی تو اس قومی جرم کا خراج 9سال کی وفاقی حکومت اور 20سال کی سندھ حکومت میں ابھی تک ادا کیا جارہا ہے مگر خون کے دھبے مٹ نہیں پارہے، وہ نپولین بونا پورٹ نہیں ہے کہ جیل میں بیماریوں کا علاج نہ ہونے پر پراسرار موت مرا تو فرانسیسی قوم کو اس وقت تک چین نہ ملا جب کئی دہائیوں بعد تک اس کو پیرس میں لاکر دفن نہ کیا گیا۔
برصغیر کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر رنگون میں جلا وطنی اور نظر بندی کے دوران مرگئے ، کہاجاتا ہے کہ ایک وجہ زہر خورانی بھی تھی۔ نہ فرانس میں نپولین کی موت آج تک تاریخ کے صفحات سے غائب ہوئی ہے اور نہ بہادر شاہ کا المناک سانحہ برصغیر کے لوگوں کے ذہنوں سے ابھی تک محو ہوا ہے۔ وہ بھی جیل میں مرا تو مرے گا نہیں، قتل ہوگا اور سیاسی قتل اس شخص کو زندہ رکھتے ہیں۔ بھٹو اور بینظیر قتل ہو کر کیا مرگئے؟ وہ آج تک زندہ ہیں اور آئندہ بھی جو اس طریقے سے مارا جائے گا وہ سیاسی شہید ہی ٹھہرے گا۔
عدالتی فیصلے نے سقراط کو مجرم قرار دیا اور قوم کے ذہن بگاڑنے پر زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی۔ بھٹو کو عدالتی فیصلے نے قاتل قرار دیتے ہوے پھانسی پر لٹکا دیا۔ بینظیر بھٹو کو ایک عدالت نے نااہل قرار دے دیا، جائیداد ضبط کرلی اور تو اور آصف زرداری 9سال جیل میں رہے مگر بعد میں ملک کے صدر بن گئے، اسی طرح سقراط، بھٹو اور بینظیر کے خلاف فیصلوںکو کبھی عوامی پذیرائی نہیں ملی، تاریخ نے ان فیصلوں کو مسترد کردیا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر وہ جیل میں مرگیا تو اس کے خلاف کئے گئے عدالتی فیصلے بھی پرزے پرزے ہو کر اڑیں گے یا پھر ان کا اثر برقرار رہے گا، تاریخ کا سبق تویہی ہے کہ عوام اور سیاست کا رخ ان فیصلوں سے اسے مبرا قرار دیدے گا۔
وہ اب جارحانہ سیاست نہیں کررہا وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے، اس کی نصف صدی کی ساتھی وفادار بیوی ساتھ چھوڑ کر جاچکی۔ پارٹی مزاحمت کے بیانیے کی حد تک تو اس کے ساتھ ہے مگر عملی مزاحمت اور جیل جانے تک تیار نہیں۔
بزنس مڈل کلاس میں اس کے حامی ووٹر، ووٹ تو اسی کو ڈالیں گے، مگر اس کے لئے اپنا جان و مال خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ ان حالات میں اس نے جیل کے اندر مدافعانہ مزاحمت شروع کر رکھی ہے، وہ حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتا، بیماریوں کا علاج کروانے کو تیار نہیں، اسپتال شفٹ ہونے کو تیار نہیں، وہ حکومت کی مرضی کی ڈیل کرنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ ہمیشہ سے ضدی تھا اب بھی ضدی ہے، وہ خاموش تو ہوگیا ہے مگر موقف بدلنے کو تیار نہیں، وہ جارحیت نہیں کررہا مگر وہ سرنڈر کرنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ تاحال جیت نہیں سکا مگر وہ شکست بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر پر شاکر ہے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھ کر توقع کرتا ہے کہ تاریخ کا پہیہ کب اپنا چکر پورا کرے گا۔ کیا وہ واقعہ اس کی موت سے پہلے ہوگا یا بعد میں؟
جیل آدھی موت ہے۔ نوع انسانی نے صدیوں کی سوچ و بچار کے بعد، پھانسی کے بعد جو سخت ترین سزا مقرر کی ہے وہ جیل بھیجنا ہے ، کوئی اگر یہ کہے کہ جیل میرا سسرال ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ جیل سوائے خوفناک مجرموں کے ہر ایک کو بدل دیتی ہے۔ نفسیاتی طور پر اور جسمانی طور پر انسان پر بہت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس پر بھی ہر روز قیامت گزرتی ہوگی ایک درجن بیماریاں، بڑھاپا اور پھر بار بار ضمیر سے اٹھتا یہ سوال، کیا میں اتنا ہی برا تھا جو مجھ سے یہ سلوک کیا جارہا ہے؟ تین بار وزیر اعظم بننے والا اس خطے کا سب سے سینئر سیاستدان کال کوٹھری میں بند ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بیمار ہوا تو ہسپتال لے جا کر پھر واپس بھیج دیا۔ لازماً دل پر آرے چلتے ہوں گے ایسے میں وہ مدافعانہ مزاحمت نہ کرے تو کیا کرے؟
وہ اکیلا ہوتا ہوگا تو سوچتا ہوگا، خلا میں گھورتا ہوگا، بائوجی کی کلثوم کو یاد کرتا ہوگا، آنکھیں بھیگ جاتی ہوں گی، سیاست کی جدوجہد میں ذاتی رشتے اور ذاتی جذبات قربان کرنا پڑتے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان قربانیوں کے گہرے زخم روح کو چھلنی نہ کرتے ہوں؟ یہ سب کچھ اس پر گزرتا ہوگا مگر وہ سب کچھ برداشت کرتا ہوگا۔ بھائی کہتا ہے بیان بازی نہ کریں، اس نے مان لیا ہے مگر اندر کا باغی اسے ہار ماننے نہیں دیتا، اسی لئے پی ٹی آئی کے ایک شہ دماغ نے ’’اس‘‘ کی حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’وہ اقتدار سے باہر نکالا گیا تو اس کی پارٹی ٹوٹنے کا خطرہ تھا، اس لئے وہ زور و شور سے بولا اور اپنی پارٹی بچالی، اب وہ اس لئے چپ ہے کہ اپنے آپ کو بچالے۔ اس کی خاموشی سے بڑا فائدہ ملے گا۔‘‘
سابقہ حکمران خاندان غلط یا صحیح، یہ سمجھتا ہے کہ ان کا دور ابتلا موجودہ حکومت کی وجہ سے قائم ہے وگرنہ ’’اصلی حکومت‘‘ کی طرف سے اب کوئی دبائو نہیں رہا۔ چھوٹے بھائی کی رہائی کو بھی اسی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اس کو میڈیکل بنیاد پر رہائی ملے تو پاکستان میں رہے پھر چاہے تو علاج کیلئے باہر جائے۔ دوسری طرف سیاسی حکومت ا یسا کرنے پر آمادہ نہیں کیونکہ اس سے سیاسی نعرے ماند پڑجائینگے، فی الحال معاملہ اسی نکتے پر رکا ہوا ہے۔
دوسری طرف جنگی صورتحال نے عمران کو سیاسی فائدہ پہنچایا ہے۔ فوج اور سیاسی حکومت کے ایک صفحے پر ہونے کی وجہ سے سارا کریڈٹ عمران خان کو مل گیا ہے۔ عمران خان نے دانشمندانہ انداز میں بھارت اور وزیر اعظم مودی سے ڈیل کیا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے سیاست اور معیشت کے بگڑتے ہوئے حالات پسِ منظر میں چلے گئے تھے مگر جونہی جنگی حالات میں سکون آئے گا خراب معیشت، اندرونی لڑائیاں، پنجاب کی کمزور قیادت اور برے طرزِ حکمرانی کے معاملے پھر سے سر اٹھائیں گے۔ حکومت کے لئے جون، جولائی کے مہینے مشکل ہوںگے۔ اگر حکومت بزنس مڈل کلاس پر نئے ٹیکس نہیں لگاتی تو ملک کی معیشت سنبھل نہیں سکتی اور اگر حکومت یہ ٹیکس لگاتی ہے تو اس کے لئے اپنی سیاست سنبھالنا مشکل ہوجائے گا، ٹریڈرز اور بزنس کلاس نئے ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہوگی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس وقت شٹر ڈائون ہڑتالیں ہوجائیں۔
دوسری طرف اگر بھارت سے مخاصمانہ ماحول جاری رہتا ہے تو پھر سیاست ٹھنڈی رہے گی البتہ خبر یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے خلاف کھچڑی پکنے کا آغاز ہوچکا ہے۔ پنجاب کے دو بڑے سیاسی خاندانوں، شریفوں اور چوہدریوں میں بیان بازی کی سیز فائر ہوچکی ،کم از کم شریف خاندان تو اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہوچکا ہے البتہ چوہدری خاندان ابھی دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ یاد رکھیے ان دو خاندانوں میں کوئی مفاہمت ہوگئی تو اقتدار پی ٹی آئی کے ہاتھوں میں رہنا مشکل ہوجائے گا، اگر امن ہوگیا تو سیاست گرم ہوگی، پہلے پنجاب کا محاذ کھڑکے گا اور پھر وفاق کا محاذ، دیکھئے قدرت سے کیا ظہور میں آتا ہے۔