کے ایچ خورشید،شک کا زہراورایک خفیہ دستاویز

ڈوب جائے گا آج بھی خورشید
آج بھی تم نظر نہ آو گے
بیت جائے گی اس طرح ہر شام
زندگی بھر ہمیں رلاؤگے
(حبیب جالب)

آہ! کے ایچ خورشید یقین نہیں آتا کہ آپ ہمارے درمیان موجود نہیں۔

میری خورشید صاحب سے کوئی جماعتی وابستگی تو نہ تھی مگر میں جب بھی ان سے ملا تو ان کی محبت و شفقت میں کبھی کمی نہیں دیکھی ۔ جب بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ،ان سے جو کچھ سیکھ سکتا تھا سیکھا۔ میں ذاتی طور ان کی محبت شفقت کو کبھی فراموش نہیں کر پاوں گا۔ میری دعا ہے کہ رب ذوالجلال مرحوم کے ایچ خورشید صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے خواب کےمطابق ریاست جموں کشمیر ایک آزاد اور باوقار ملک بنے۔

جناب کے ایچ خورشید مرحوم ہمہ صفت ہر دلعزیز کشمیری رہنما تھے، انگریزی اردو، کشمیری، پنجابی زبانوں پرپورا عبور حاصل تھا۔ وہ بہت خوش طبع ، خوش جمال ، خوش لباس اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے ۔ ذہانت،اسلوب خطابت، شعر و ادب سے رغبت، فکر و تدبر سے مالا مال کے ایچ خورشید تاریخ کشمیر کا ایک ناقابل فراموش کردار ہیں۔ کسی بھی عوامی اجتماع میں استدلال کے ساتھ تقریر سے سامعین کا دل موہ لیتے تھے اور جس مجلس میں بھی شرکت کرتے شمع مجلس ہوجاتے۔ تقریر کے دوران جملوں اور اشعار کے استعمال میں ان کی برجستگی ماحول کو گرما دیتی۔ ان کا انداز حکمرانی بھی بہت خوبصورت تھا۔

یہ ساری خوبیاں اللہ تعالیٰ نے کے ایچ خورشید کی ذات میں ودیعت کر رکھی تھیں۔ خورشید الحسن خورشید قائدانہ بصیرت اور گو ناں گوں صلاحیتوں سے مالا مال ایک باوقار خودار انسان تھے۔

خورشید صاحب سے وابستہ یادوں اور ان سے ہوئی ملاقاتوں کا سلسلہ سالوں پر محیط ہے، وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور مجھے بھی ان سے عقیدت بھرا پیار اور لگاو تھا۔ افسوس کہ ہماری قوم کو اپنی تاریخ کے مشکل وقت میں جب ان جیسے درویش صفت دور اندیش رہنما کی ضرورت پڑی تو وہ ہم میں موجود نہ رہے۔ ان کی آزاد کشمیر کے عوام کی خدمات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا ۔

فیس بک پر علمی پیاس بجھانے والے کشمیری نوجوانوں کی آگاہی کیلئے ان کا مختصر تعارف لکھ رہا ہوں۔

خورشید الحسن خورشید صاحب شہر جموں کے رہنے والے انسپکٹر سکولز مولوی محمد حسن کے صاحبزادے تھے ، کے ایچ خورشید صاحب 1924 میں گلگت میں میں پیدا ہوئے۔ بعض مورخ لکھتے ہیں کہ وہ سرینگر میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے جموں ، اننت ناگ ، سری نگر اور انگلستان میں تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کے سیکرٹری کے طور پر کام بھی کیا۔ 1942ء کی گول میز کانفرنسوں میں قائداعظم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد چھٹیاں گزارنے سری نگر گئے تو گرفتار کر لیے گئے تو 1949ء تک نظر بند رہے۔ ان کی رہائی کیلیے قائد اعظم نے ذاتی دلچسپی لی اور پنڈت نہرو کو مراسلہ لکھا۔ کہا جاتا کہ پاکستان میں قید گلگت بلتستان میں مہاراجہ کشمیر کے گورنر بریگیڈیر گھنسارا سنگھ کے بدلے انہیں سوچیت گڑھ سیالکوٹ کے راستے رہا کیا گیا۔ وہ متارکہ جنگ کے معاہدے کے بعد رہا ہوئے اور پاکستان واپس آکر لاہور سے ایک انگریزی رسالہ ’’گارڈین‘‘ نکالا۔

وکی پیڈیا کے مطابق جلد ہی قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلستان چلے گئے۔ 1954ء میں بار ایٹ لا کیا۔ 1951ء میں امریکا کے دورے پر گئے۔ 1952ء میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان نے مسئلہ کشمیر پر صلاح مشورے کے لیے پیرس بلایا۔ کچھ عرصہ حکومت آزاد کشمیر کے پبلسٹی ایڈوائزر کی حیثیت سے کام کیا۔ تین برس آزاد کشمیر کے غیر سرکاری نمائندے کے طور پر کراچی میں مقیم رہے۔ 27 اپریل 1959ء کو سردار محمد ابراہیم کی کابینہ کے استعفے کی منظوری کے بعد آپ کو آزاد کشمیر کا صدر مقرر کیا گیا۔ اکتوبر1962ء میں آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔

1964ء میں کشمیری رہنما شیخ محمد عبدا لله کا سرکاری استقبال کرنے والی حکومت پاکستان کی سرکاری کمیٹی کے سربراہ ہونے کے ناتے انہوں نے مظفر آباد میں شیخ صاحب کا حکومتی سطح پر شاندار استقبال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ خورشید صاحب اور شیخ صاحب کے درمیان کشمیری زبان میں سر گوشی کرنے کا وزیر داخلہ و امور کشمیر ملک حبیب اللہ نے برا مانا اور صدر پاکستان ایوب خان سے اپنے شکوک کا اظہار کیا۔ جس پر ایک خفیہ دستاویز کے مطابق ان سے حکومت پاکستان نے استعفی طلب کر لیا اور خورشید صاحب نے 1963 میں صدارت سے استعفی دے دیا یا صدارت سے برطرف کر دیے گئے ۔ خورشید صاحب اور شیخ صاحب کے مابین کیا بات ہوئی ؟ یار لوگ اسے بھی کشمیر کو خود مختار بنانے کی سازش سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ جناب کے ایچ خورشید صاحب نے آزاد کشمیر کے عوام کے حق رائے دہی اور جمہوری حقوق کی بحالی کیلیے بھی بے مثال جدوجہد کی۔

ایک خفیہ دستاویز کے مطابق ان سے حکومت پاکستان نے استعفی طلب کر لیاگیا تھا

فاتح گلگت کرنل حسن خان مرحوم کے فرزند وجاہت حسن صاحب کی طرف سے فراہم کردہ حکومت پاکستان کی ان خفیہ دستاویزات کو جواب ڈی کلاسیفائڈ ہو چکی ہیں۔ گزشتہ سال بھی شیئر کیں ، آپ دونوں دستاویزات کو خود پڑھیں۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ اب کے ایچ خورشید کو صدر کی حیثیت سے برقرار رکھنا آذاد کشمیر اور پاکستان کے مفاد میں نہیں

5 اگست 1964 کو صدر پاکستان کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں بانی پاکستان کے معتمد خاص کی پاکستان سے وفاداری کو مشکوک بناتے ہوے صدر پاکستان نے ان کی تعیناتی کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ اب کے ایچ خورشید کو صدر کی حیثیت سے برقرار رکھنا آزاد کشمیر اور پاکستان کے مفاد میں نہیں ۔ کابینہ کے اسی فیصلہ کی روشنی میں ۶ اکتوبر 1964 کو منسٹری آف ہوم اینڈ کشمیر افیئرز واقع شہزادہ کوٹھی سے ایک خفیہ میمورنڈم جاری کیا گیا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے