خواتین مارچ کے پوسٹرز، حیا اور مرد

انٹرنیٹ پر پھیلی عورت مارچ کی تصاویر اور پوسٹرز کی دھوم ابھی تک مچی ہوئی ہے۔ پوسٹرز کے حوالے سےتین بیانئے زیر بحث ہیں۔ ایک بیانیہ یہ ہے کہ یہ پوسٹرز خواتین کی آزادی اور حقوق کی جدوجہد کے لئے ضروری تھے۔ کیونکہ معاشرے کے مرد نے نہ صرف خواتین کے حقوق سلب کر رکھے ہیں بلکہ خواتین کو روزمرہ کی گفتگو میں جن بے باک اور قابل اعتراض لفظوں سے پکارا جاتا ہے یہ سارے الفاظ ان کا عکس ہیں۔

دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ مارچ کرنے والی یہ ساری خواتین ‘’بے حیا ‘’ اور ‘’بے گھر’’ ہیں ۔یہ خواتین نہ صرف اپنا گھر تباہ کئے بیٹھی ہیں بلکہ اور لاکھوں خواتین کا گھر تباہ کرنے پربھی تلی ہوئی ہیں ۔ تیسرا بیانیہ یہ ہے کہ معاشرے میں خواتین ظلم و زیادتی کا شکار ہیں لیکن بینرز پر حقیقی مطالبات درج نہیں تھے ۔ خواتین کو ان بینرز پر کی گئی لفاظی کے علاوہ اپنے حقیقی مطالبات پر بھی بات کرنی چاہئے ۔

قطع نظر اس کے کہ یہ پوسٹرز کتنے صحیح یا غلط تھے اور اس سے خواتین کو اپنے حقوق کے بارے جدوجہد میں کیا فائدہ یا نقصان ہو گا ۔ بہرحال سوشل میڈیا پر خواتین کے حوالے سے ایک بحث کا آغاز ضرور ہوا ہے۔

شمائلہ خان جو صحافی ہیں ان کا کہنا ہے کہ در اصل ان پوسٹرز پر جو مردوں کا رد عمل سامنے آ رہا ہے وہ دلچسپ ہے ان کا کہنا ہے کہ مردوں کی گفتگو میں بیویوں کے متعلق جو لطیفے شئیر کئے جاتے ہیں یا عام طور پر جو عورتوں پر طعن و تشنیع ، طنز اور تنقید کی جاتی ہے اس کے مقابلے میں جو کچھ پوسٹرز پر درج ہے وہ بہت کم ہے ۔ جب کہ خواتین روزانہ سوشل میڈیا پر ایسے بیسیوں جملوں اور الفاظ کا سامنا کرتی ہیں جو ان خواتین نے صرف ایک دن استعمال کئے ۔

معروف براڈکاسٹر بشری اقبال حسین کے مطابق جو بیانیہ بظاہر سوشل میڈیا میں نظر آیا ہے یہ اگر مرد استعمال کریں تو بھی غلط ہے اور اگر خواتین نے بھی بغیر سیاق و سباق کے اس کو استعمال کیا ہے تو یہ کنفیوژن پیدا کرتا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ بہت بہتر ہوتا کہ اس پیغام کی یاد دہانی کرائی جاتی کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم مرد سے کچھ چھین رہے ہیں بلکہ یہ باور کرایا جاتا کہ کس طرح مرد اور عورت مل کر اس معاشرے کو بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس دفعہ یوم خواتین کا موضوع ’’بیٹر فار بیلنس تھا جس کامطلب اصناف کے درمیان توازن ہے ۔

چونکہ ہم اپنے روایتی میڈیا اور روزمرہ کی بول چال میں سنسی خیزی ،قتل اور ریپ جیسے واقعات میں بھی چسکے لینے کے عادی ہیں ۔ اس لئے وہ پوسٹرز جن پر وہ مطالبات درج تھے جن کا تقاضا کیا جا رہا ہے ،سوشل میڈیا سے غائب رہے ۔ اسلام آباد اور کراچی کے پوش اور بلند و بالا عمارتوں کے سبزہ زاروں پر کھڑی ان گھریلو اور مزدور طبقے کی خواتین پر کیمرے والوں کی نظریں کم کم پڑتی نظر آئیں جو ایسے مطالبات کرتی نظر آئیں جن میں پاکستان بہت پیچھے ہے ۔

سماجی نا انصافی کے حوالے سے پوسٹرز اٹھائے خواتین نے ‘’یکسا ں کام یکساں اجرت ، میری صحت ضروری ہے ، میری بیٹی بھی پڑھے گی ، جہیز ایک بے غیرتی ‘’ جیسے مطالبات درج کئے تھے ۔ بلوچستان کی وہ بہنیں ، بیٹیاں اور مائیں نظر آئیں جو اپنے مسنگ ‘’ مردوں ‘’ کی بازیابی کے لئے پوسٹر اٹھائے کھڑی تھیں ۔ برقعے میں ملبوس ایک خاتون نے ایک لڑکے کاکاغذی مجسمہ اٹھا رکھا تھا جس پر قندیل بلو چ کا ماسک لگایا گیا تھا۔

کچھ پوسٹرز سیاسی حقوق سےمتعلق تھے۔ ان پوسٹرز میں سیاسی جماعتوں میں عورتوں کو فیصلہ سازی کی سطحوں میں شامل کرنے کا حق ، مقامی حکومتوں کے انتخابات وقت پر کرانے اور خواتین کو نمائندگی دینے کا حق جیسے نعرے درج تھے ۔

وومن ورکرز فیڈریشن کے زیر اہتمام حیدر آباد میں محنت کش عورت ریلی بھی نکالی گئی۔ ریلی میں سینکڑوں مزدور خواتین نے شرکت کی ۔اس ریلی میں خواتین کے مطالبات میں عورتوں کے خلاف تشدد بند کرو ، سماجی نا انصافی نا منظور، تنخواہوں میں اضافے کے مطالبات درج تھے ۔

اس سال یوم خواتین کا رنگ جامنی تھا ۔ اس مناسبت سے پشاور کی خواتین نے جامنی رنگ کے پوسٹرز پر زچگی کی چھٹیوں میں اضافے ، میڈیا میں خواتین کے حوالے سے مثبت رپورٹنگ ، گھریلو تشدد کے حوالے سے بل کی فی الفور منظوری ، جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی ، صنفی مساوات ، برابری کی اجرت اور خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق نعرے درج تھے ۔

ورلڈ اکنا مک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018 کے مطابق خواتین کو Empower کرنےمیں149 ملکوں میں پاکستان 148 ویں نمبر پر ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان صنفی لحاظ سے معاشی ناہمواری میں 146 ویں نمبر، تعلیمی حصول میں 139 ویں نمبر اور صحت کے حقوق کے حوالے سے 145 ویں نمبر پر ہے ۔

خواتین کے عالمی دن کی بنیاد کپڑے کی فیکٹری میں کام کرنے والی تھریسا سربر نے رکھی جو بعد ازاں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوئیں ۔ انہوں نے ہجرت کرنے والی بالغ خواتین کے لئے ایک ادارہ قائم کیا ۔ کیا ہماری مرد پالیسی ساز ایک فیکٹری مزدور کی شروع کی گئی تحریک پر عمل درآمد کرتے ہوئے پاکستان میں صنفی انصاف کو فروغ دے پائیں گے؟ کیا پچاس فی صد آبادی کو اپنے حقوق کے لئے ہمیشہ یوں ہی سڑکوں پر نکلنا ہو گا ؟ کیا باپ ،بیٹی کو بھی اسی سکول میں داخل کرائے گا جس میں بیٹا پڑھتا ہے؟ کیا زچگی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں مرنے والی خواتین کو اب علاج کی سہولت مل سکے گی ؟ اور سب سے بڑھ کر کیا مرد پارکوں ، بازاروں اور دفتروں میں کام کرنے والی عورتوں کو گھورنا بند کر دیں گے؟ ذر ا سوچئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے