جب سے بھارت ‘ہندو بنا ہے‘ وہاں کی زندگی تنگ نظری کا مثالیہ بن چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا‘ جب ہندوستان شہری آزادیوں کی ایک مثال ہوا کرتا تھا۔ کہاں پنڈ ت نہرو؟ مسز گاندھی‘ ان کے صاحبزادے‘ راجیو گاندھی اور من موہن سنگھ۔یہاں تک بھارتی وزرائے اعظم کی حکومتیں‘ آزاد خیالی سے لے کر‘ قابل برداشت حکومتیں قرار دی جا سکتی ہیں۔پنڈت نہرو کے ادوار تو اپنے دور کی ایک مثالی حکومتیں تھیں۔
ان کے بعد بھی قائم ہونے والی حکومتوں میںبڑی حد تک کھلے معاشرے موجود تھے۔مسلمانوں کے لئے بھی کسی حد تک گوارہ معاشرے دستیاب تھے ‘لیکن موجودہ وزیراعظم کی تنگ دلی اور تنگ نظری‘ حد یہ کہ ہر طرح کی زندگی مسلمان تو کیا ہندوئوں کے لئے بھی گزارنا کرنادشوار ہو گیا۔مسلمانوں کے لئے تو انڈیا یا ہندوستان کا نام بھی بدل کر بھارت ہو گیا۔ایک دور تھا ‘جب ہر مذہب کے لوگ آزاد خیالی سے اپنی زندگی گزاررہے تھے‘ بلکہ کہا جائے تو کسی حد تک مسلمان لیڈروں نے اپنے ہم مذہبوں پر نئی پابندیاں عائد کر دیں‘ شاید یہ تنگ نظر ہندو ؤں کا ردعمل تھا کہ مسلمانوں نے بھی اہل اسلام کی زندگی بڑی حد تک‘ خاص کرخواتین کے لئے جینا دوبھر کر دیا۔
جب سے مودی نے تنگ نظری کی انتہا کی‘ کم وبیش ہر مذہب کے لوگ دور جدید کی زندگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔چند روز پہلے تک بھارتی ٹی وی پرایک تفریحی پروگرام نشر ہوا کرتا تھا‘ جس میں کھلے دل سے طنز ومزاح کا پروگرام دکھایا جاتا۔ جیسے ہی مودی صاحب اپنی ” ہودی‘‘ لے کر بھارت کی زندگی پر مسلط ہوئے‘ وہاں کی کھلے دلی دیکھتے ہی دیکھتے‘ تنگ نظر ی میں بدل گئی۔ اس پروگرام کانوجوت سنگھ سدھو کا حصہ تھا اور آج بھی ہے۔ایک طرف ہندو اداکارکپل شرما میزبان تھا ‘ جو حاضرین اور ناظرین دونوں کو معاشرتی تنگ نظری سے نکال کر ‘کھلے دل سے روزمرہ کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا۔ جیسے ہی مودی نازل ہوا‘اس نے کھلے معاشرے کو‘ تنگ کال کوٹھڑی میں بدل دیا۔یہ مزاحیہ پروگرام دیکھتے ہی دیکھتے‘ مودی کی تنگ نظری کے شکنجے میں آتا چلا گیا۔ میں اس پروگرام سے مودی صاحب کی کارستانیاں دیکھتا آرہا ہوں۔
اس پروگرام میں دو کردار دوستی کے انداز میں ناظرین کو کھلے دل سے ہنسنے ‘ چھیڑ چھاڑ کرنے اور دوستی کے حسن سے حاضرین کو لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتے۔ سدھوصاحب ‘بھارت کی کرکٹ ٹیم کا ایک زندہ دل کردار تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کھلاڑیوں کی زندگی بے تکلفی‘ چھیڑ خانیوں اور طنز و مزاح سے بھر پور ہوتی ہے۔
پروگرام کے اینکراور دوست سدھو کے کردار کی باہمی چھیڑ خانیوں سے ناظرین اورحاضرین کو بے حد لطف آیا کرتا ۔ سدھو بھارتی ٹیم کا بہترین کھلاڑی تھا۔وہ بڑے عمدہ شاٹ لگایا کرتا‘ لیکن ایک بار وہ جب اوپننگ کے لئے میدان میں اترا تو بد نصیبی سے ابتدائی گیندوں میں آئوٹ ہو گیا۔کپل شرما نے کمال مہارت سے اس واقعے کو سدھو کی چھیڑ خانی میں بدل ڈالا۔ جب بھی اسے سدھو کو چھیڑنا ہوتا ‘ وہ اس واقعے کو ناظرین کے ساتھ نئے انداز میں بیان کرتاتو سدھو چڑ کے کپل شرماپر لپکتا ۔ دونوں کی زندہ دلی شروع ہو جاتی۔ مزاحیہ کرداروں کی یہ چھیڑ خانی ناظرین کے لئے انتہائی دلچسپ ہوتی۔یہ چھیڑ خانی دیکھنے والوں کو بے حد پسند آتی۔سدھو اسمبلی کا رکن بھی ہوا کرتا۔ سیاست میں دلچسپی لیتا ‘لیکن وہ اپنی نجی زندگی میں ایک کردار کی حیثیت میں ناظرین کوزبردست تفریح فراہم کرتا۔جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ سدھو صاحب بھارت کی قومی اسمبلی کے رکن بھی ہوتے اور کبھی کبھار سیاسی پوزیشن بھی لے بیٹھتے۔
پاکستان اور بھار ت دونوں طرف کے عام شہری ‘ زندگی میں سدھو کی دلکشی اور چھیڑ خانیوں کو یاد کر کے مزے لیا کرتے۔ سدھو بطور ایک کھلاڑی اور زندہ دل کردار کی حیثیت میں پاکستان آیا تو وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میںاس کا سامنا ‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہو گیا اوراس نے ایک سادہ دل شہری کی طرح فرمائش کی کہ ان کے گرو کی سمادھی پاکستان میں واقع ہے؛ اگر گرو نانک کی سالانہ تقریب کے موقعے پر‘ ان کے پیروکاروں کو حاضری دینے کے مواقع مل جائیں تو پوری سکھ برداری ان کی ممنون ہو گی ۔ پاکستانی قوم عادتاً اور مزاجاً تنگ نظری سے آزاد ہے۔آرمی چیف باجوہ صاحب نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے یہ درخواست قبول کر لی۔اس پر بھار ت میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔
پاکستانی قوم کی روایتی فراخ دلی کی روشنی میں اجازت دے دی گئی۔ پاکستان میں بہت چرچے ہوئے اور تنگ نظر ہندو حکمرانوں کی تنگ دلی پھڑک گئی اور مودی کو پاکستانیوں کی یہ فراخ دلی بھی ناگوار گزری۔ بھارت کے سرکاری اہلکاروں کو‘کرتارپور کی راہداری تقریب میں شرکت کے لئے پاکستان آنے سے روک دیا گیا۔ سکھوں کے لئے یہ ایک مذہبی شگون تھا۔کئی ایک عہدیداروں نے اپنی مذہبی تقریب کی شرکت میں رکاوٹ کی پابندی کو ایک طرف رکھا اور وہ اپنی مذہبی رسومات میں شریک ہونے سے نہیں رکے۔اس موقع پر روایتی عقائد غالب آئے اور کسی نے بھی مذہبی عقائد کی پروا کئے بغیر‘اپنے گرو صاحب کی عقیدت کو ترجیح دی اور مودی اور اس کے حواریوں کی تنگ نظری کو خاطر میں نہیں لائے ۔ دوسری طرف سدھو کا مزاحیہ پروگرام زیر عتاب آگیا۔
اس پر پابندیاں لگانے کے لئے انتہا پسند ہندو میدان میں کود پڑ ے ۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ مودی کی تنگ نظری پر بھارتی عوام ایسے بے زار ہوئے کہ سوشل میڈیا پر یہ پروگرام بے تحاشا دیکھا جا رہا ہے۔یہ پروگرام صرف بھارت ہی نہیں بیرونی ملکوںمیں بھی دیکھا جا رہا ہے اور بھارتی عوام‘ مودی جی کے سڑیل پن سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
[pullquote](جاری)[/pullquote]