بو سونگھ کر بیماری بتانے والی حیرت انگیز آسٹریلوی خاتون

womanکچھ انسانوں میں عام لوگوں سے ہٹ کر ایسی خداداد صلاحیتں ہوتی ہیں جو دوسروں کو حیران کردیتی ہیں اور آسٹریلیا میں ایک خاتون کے پاس ایسی ہی حیرت انگیز صلاحیت ہے جس کی مدد سے وہ بیماری کی بوسونگھ کر اس کے تشخیص کرلیتی ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق مغربی آسٹریلیا کے دارالحکومت پرتھ سے تعلق رکھنے والی خاتون جوئے ملن کی سونگھنے کی حس اتنی تیز ہے کہ وہ اس کی مدد سے پارکنسنز کے مرض کی تشخیص بآسانی کر سکتی ہیں۔ پارکنسنز کے مرض سے لوگ صحیح طرح چل، بول یا سو نہیں سکتے، اس مرض کا کوئی علاج یا حتمی تشخیصی طریقہ نہیں ہے لیکن پہلی بار جوئے نے اپنے شوہر میں اس مرض کی تشخیص 6 سال پہلے ہی کرلی تھی۔ ان کاکہنا ہے کہ ان کے شوہر کے بدن کی اچانک مہک بدل گئی جسے بیان کرنا مشکل ہے تاہم یہ اچانک ہونے والی تبدیلی بعد میں رفتہ رفتہ بدلتی چلی گئی  لیکن وہ اس مہک کو کبھی کبھار ہی سونگھ پاتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جوئے اس مہک کو پارکنسنز سے تب ہی منسلک کر پائیں جب انہوں نے برطانیہ کی ایک خیراتی تنظیم کی رکنیت حاصل کی اور ایسے لوگوں سے ملیں جن سے بھی یہ خاص مہک آتی تھی۔

اتفاق سے جوئے نے ایک سیمینار کے دوران اس بات کا ذکر کچھ سائنسدانوں کے سامنے کیا جنہوں نے ان کی اس بات میں بہت دلچسپی ظاہر کی۔ ایڈنبرا یونیورسٹی نے ان پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا جس دوران جوئے نے کئی درست جواب دیئے۔ ڈاکٹر ٹیلو کوناتھ ایڈنبرا یونیورسٹی میں حیاتیاتی سائنس کے اسکول سے منسلک ہیں اور وہ پہلے سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جن سے جوئے نے شروع میں بات کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ جوئے پر تجربہ کرنے کے لیے ہم نے پارکنسنز میں مبتلا چھ لوگوں کو بلایا۔ اس کے علاوہ ہم نے اس مرض سے محفوظ 6 لوگوں کو بھی بلایا تھا اور انہیں ٹی شرٹس پہنائی گئیں اور پھر واپس لے کر انھیں تھیلیوں میں ڈال کر ان کی شناخت کی۔ جوئے نے ہمیں یہ بتانا تھا کہ کون سا شخص پارکنسنز سے متاثر تھا اور کون سا نہیں اور انہوں نے 12 میں سے 11 درست جواب دییے تھے جس سے ہم بہت متاثر ہوئے تھے۔

ایک شخص جس کے بارے میں جوئے کا کہنا تھا کہ اسے یہ بیماری ہے لیکن وہ نہیں مانا تاہم اس تجربے کے 8 ماہ بعد اس شخص نے بتایا کہ اسے پارکنسنز کی تشخیص کی گئی تھی اس لیے جوئے نے 12 میں 11 نہیں بلکہ سارے لوگوں کی شناخت صحیح کی تھی جس سے سائنس دان ان سے اتنے متاثر ہوئے اور اس رجحان کی مزید چھان بین کرنا شروع کردی۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ پارکنسنز کے ابتدائی مراحل میں لوگوں سے ایک خاص مہک نکلتی ہے جو اس مرض سے منسلک ہے۔ سائنسدان چاہتے ہیں کہ وہ اس مہک کی وجہ ڈھونڈ کر اس کی شناخت ایک مولیکیول سے کر سکیں جس کے بعد وہ ایک سادہ تجربہ تخلیق کرنے کی امید کرتے ہیں۔ جوئے امید کرتی ہیں کہ ان کی اس حادثاتی دریافت سے پارکنسنز بیماری کے ابتدائی مراحل میں مریضوں کی زندگی پر خاصا مثبت اثر پڑ ے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے