جب ’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘ کا بہت چرچا تھا تو ایک دوست نے رات کے کھانے پر مدعو کرلیا۔میرے میزبان کی بے شمارصحافیوں سے ذاتی حوالوں سے دیرینہ دوستیاں ہیں۔ ان کے ہاں جائوں تو کئی مشہور اور متحرک ہم پیشہ دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ گوشہ نشین ہوئے رپورٹر کو حالاتِ حاضرہ کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ٹھوس مواد مل جاتا ہے۔اس روز جو دوست وہاں موجود تھے ان میں سے کئی ایک کے ساتھ تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ان سب کو یقین تھا کہ میاں نواز شریف صاحب ضمانت پر رہا ہورہے ہیں۔
ممکنہ رہائی کے بعد وہ ’’مناسب‘‘ اور ’’بھاری بھرکم‘‘ زرِضمانت قومی خزانے میں جمع کروانے کے بعد علاج کے لئے بیرونِ ملک تشریف لے جائیں گے۔پاکستان سے ان کی عدم موجودگی طوالت اختیار کرسکتی ہے۔ محترمہ مریم نواز بھی ان کی دیکھ بھال کے لئے ان کے ہمراہ ہوں گی اور سیاسی منظر نامے پر ان دونوں کی عدم موجودگی سے کافی ٹھہرائو آجائے گا۔میرے پاس ان کی سوچ کو تسلیم یا رد کرنے کے لئے کوئی ٹھوس شے موجود نہیں تھی۔ ان میں سے اکثر کی باتوں کو سنجیدگی سے اس لئے بھی لینا پڑا وہ ’’کسی‘‘ کے ایماپر ڈس انفارمیشن پھیلانے کے عادی نہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن حلقوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہوئے حالات کا اپنے تئیں تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کے تجزیے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی نیت پر شک کرنے کی گنجائش موجود نہیں۔ان کے تجزیے کے بارے میں میری خاموشی کو چند دوستوں نے ’’مشتبہ‘‘ ٹھہرایا۔
کچھ کا یہ خیال بھی تھا کہ میرے پاس ’’پوری خبر‘‘ موجود ہے لیکن میں اسے چھپارہا ہوں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ میرا عالم اس پنجابی محاورے والا تھا جہاں امکان دکھائی نہ دینے کے بعد ’’شاید‘‘ لگایا جاتاہے۔اتفاق سے چند روز بعد فیصلہ آگیا۔ ضمانت کی درخواست مسترد ہوگئی۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسے فوری سماعت کا مستحق نہیں گردانا۔ طبی بنیادوں پر اب دوبارہ فوری سماعت کی درخواست دائر ہوئی ہے۔ اس ضمن میں فیصلہ جو بھی آئے یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘ کی باتیں ہوائی تھیں۔ ڈرائنگ روم گپ شپ تھی۔ٹاک شوز میں رونق تک محدود تھیں۔’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘پر مبنی قیاس آرائیوں کو پاکستان کے مخصوص سیاسی تناظر میں رکھتے ہوئے بے پرکی ٹھہرانے سے بھی لیکن خوف آتا ہے۔جنرل مشرف کے ٹیک اوور کے بعد میاں صاحب جہاز کو مبینہ طورپر اغواء کروانے کی کوشش کے الزام کے تحت سزا پانے کے باوجود سعودی عرب چلے گئے تھے۔
2007میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے جنرل مشرف کا NROبھی ہوگیا تھا۔ ’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘کی افواہوں پر غور کرتے ہوئے ان ٹھوس واقعات کو نظر میں رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔انگریزی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔Path Dependency۔سادہ ترین لفظوں میں اسے یوں سمجھیں کہ لوگ اسی ڈگر پر چلنے کے عادی ہوتے ہیں جو ان کے آبائو اجداد صدیوں سے اختیار کئے ہوئے ہیں۔پرانی ڈگر سے وابستہ رہنے کی عادت زندگی کو آسان بنائے رکھتی ہے۔ یہ آسانی مگر تجسس کی صلاحیت کو کند کردیتی ہے۔ انسان اس ڈگر کو دیکھنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں جسے دریافت کرنے کے بعد استعمال کیا جائے تو پرانی ڈگر احمقانہ محسوس ہوتی ہے۔ نئی ڈگر کی تلاش مگر تخلیقی سوچ کا تقاضہ کرتی ہے۔ یہ اکثر نصیب نہیں ہوتی۔ملکی سیاست کی تاریخ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے لہٰذا ہم ’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘کے چرچے کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوگئے۔
Path Dependencyکے علاوہ ہماری خواہشات بھی ہوتی ہیں۔ نواز شریف یقینا اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں۔ ان کی ذات اور سیاست سے بے پناہ نفرت کرنے والے بھی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ انہیں چاہنے والوں کی ایک بے تحاشہ تعداد بھی اس ملک میں موجود ہے۔ جولائی 2018کے انتخابات کے نتائج بہت ٹھوس انداز میں اس حمایت یا ستائش کی نشان دہی کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ستائش وحمایت والے حلقوں میں یہ خواہش شدت سے موجود ہے کہ میاں صاحب کی مشکلات آسان ہوں۔ ان حلقوں کو Path Dependencyکے تناظرمیں ’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘والی باتیں اطمینان دلاتی ہیں۔
2019کا پاکستان مگر عمران خان صاحب کی وجہ ہی سے نہیں بلکہ کئی حوالوں سے ایک ’’نیا‘‘ پاکستان ہے۔ اس کی حرکیات(Dynamics)پر بہت غور کرتے ہوئے ہمیں سیاسی حقائق کے بارے میں Path Dependencyسے چھٹکاراحاصل کرنا ہوگا۔کوئی ’’نئی‘‘ ڈگر دریافت نہ بھی کرپائیں تو کم از کم نئے سوالات اٹھاتے ہوئے مستقبل کے زائچے بنانا ہوں گے۔اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوا میں ’’نئے پاکستان‘‘ کی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش میں لگارہتا ہوں۔وہ جسے Big Pictureکہا جاتا ہے ایمان داری کی بات ہے ابھی تک مجھے پوری طرح سمجھ نہیں آئی ہے۔ اسے سمجھے بغیر ’’نئے‘‘ سوالات اٹھانا ممکن نہیں۔
ان کے جوابات ڈھونڈنے کی لگن اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ مجھے ہرگز یقین نہیں کہ اس مرحلے تک پہنچ پائوں گا یا نہیں۔’’اندر کی خبر‘‘ میرے پاس موجود نہیں۔ ہوتی تو آپ سے واضح لفظوں میں نہ سہی تو اشاروں کنایوں میں شیئر ہرصورت کرتا۔ ایک بات مگر اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘کی باتوں کو نظرانداز کرنا ضروری ہے۔ فی الوقت میاں صاحب پر آئی گھڑی ایک طویل اور پیچیدہ Processسے متعلق ہے۔ عدالتیں اس Processمیں کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی باعث نواز شریف صاحب کے وکیل سپریم کورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی رہائی کے لئے فوری سماعت کی ایک اور درخواست دائر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی راہ موجود نہیں تھی۔