جیسے جیسے اس پروگرام کی شگفتگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے خلاف مودی سرکار کی بد مزاجی بڑھتی جا رہی ہے۔گزشتہ چند قسطوں میں سرکاری مداخلت اس قدر بڑھ گئی کہ اینکر صاحب خوش مزاجی کے باوجود‘ اپنی زندہ دلی برقرار نہ رکھ سکے۔حد یہ ہوئی کہ جس سماجی‘ ادبی یا مجلسی شخصیت کو دعوت دی جاتی اور وہ بدنصیبی سے کوئی سیاسی قصہ سنا گیا ‘تو آئندہ کے لئے اس کی شرکت پر پابندی لگادی جاتی۔چند روز پہلے بھارتی کرکٹ کے نامور کھلاڑیوں کو اپنے شو میں جمع کر کے ایک خوش گوار محفل ترتیب دی گئی۔ بھارتی کرکٹ کی تاریخ میں بڑے عظیم کھلاڑی پیدا ہوئے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کے کھلاڑیوں کو دیکھا جائے‘ تو دنیائے کرکٹ کے ان درخشندہ ستاروں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔نواب آف پٹودی جانے پہچانے کھلاڑ ی تھے۔ پاکستان کے پہلے نمایاں کھلاڑی عبدالحفیظ کاردارتھے۔
انہوں نے پاکستان کی نئی کرکٹ ٹیم کی بنیاد رکھی‘ جن میں فضل محمود‘ خان محمد‘حنیف محمد‘ مقصوداحمد‘ نذر محمد اوروقار حسن بھی شامل تھے ۔ اس نوزائیدہ کرکٹ ٹیم نے ‘نئی ہونے کے باوجود عمدہ کرکٹ کھیلی اور بعض ریکارڈقائم کئے۔ ایک ایسی ٹیم جو وسائل اور سہولتوں کے اعتبار سے کافی پسماندہ تھی‘اس نے دیرینہ روایات رکھنے کے باوجود‘اچھے ریکارڈ قائم کئے۔ظاہر ہے کہ آج پاکستان کی ٹیم نئی روایات قائم کر رہی ہے۔ پورے ملک میں نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیمیں بنائی جا رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں‘ جب پاکستان کے نوجوان کھلاڑی عالمی کرکٹ کے روشن ستارے بن کر ابھریں گے۔ پاکستانی کرکٹ کی حوصلہ افزائی کی بنیادی وجہ موجودہ وزیراعظم عمران خان ہیں‘ جو خود ایک سٹارکھلاڑی تھے ۔ موجودہ کرکٹ میں جو نئے نئے کھلاڑی نمودار ہو رہے ہیں‘یہ خان صاحب کی کرکٹ سے لگائو کا منہ بولتاثبوت ہے۔
تقسیم کے بعد ہندوستان کی متحدہ کرکٹ ٹیم میں کھلاڑیوں کو کسی تعصب کے بغیر شامل کیا جاتا رہا۔ایک عرصے تک یہ روایت قائم رہی۔ بھارتی ٹیم میں مسلمانوں اور سکھوں میں سے ہر مذہب کے کھلاڑی شامل ہوئے ‘ ان میں سب سے درخشندہ ستارہ اظہرالدین تھا۔ اس جیسا شاندار کھلاڑی شاید ہی منظر عام پر آیا ہو۔مزید مسلمان کھلاڑیوں کے نام اب مجھے یاد نہیں رہے۔ اسی طرح یہی حالت سکھوں کی تھی۔نوجوت سنگھ سدھو اپنے دور کے بہترین اوپننگ بیٹسمین رہے۔ ایک سکھ ہونے کی حیثیت میں وہ اپنی مذہبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سکھوں کے ایک قابل احترام گرو کی قبر پاکستان میں ہے۔سکھوں نے بہت کوشش کی کہ ان کی مذہبی یادگاروں پر انہیں آزادانہ آمدورفت کا موقع دیا جائے۔
کافی عرصے تک اس کی اجازت نہیں ملی۔ حال میں سدھونے اپنی سیاسی اور سماجی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے‘ تن تنہا پرزور کوشش کر کے کرتار پور کا میلہ منعقد کروایا‘ جس میں سکھوں کی بہت بڑی تعداد نے نا صرف بھارت‘ بلکہ پوری دنیا سے آکر شرکت کی ۔امید ہے‘ اب کرتارپور کے میلے میں دنیا بھر کے سکھ زور شور سے شرکت کیا کریں گے۔ میلہ تو ہوگا ہی‘ ویسے بھی اپنے بانی گرو کی تقریبات میں شرکت کے لئے ‘اپنے آبائی وطن کی زیارت کے لئے آیا کریں گے اور وہ زمانہ دور نہیں‘ جب سکھ پاکستان کی تہذیبی زندگی کا دوبارہ حصہ بن جائیں گے۔
چند روز پہلے کپل شرما نے بھارت کے تاریخی کرکٹرز کواپنے شو میں یکجا کیا۔ بھارتی کرکٹرزمیں مسلمانوں کے نمایاں کھلاڑی بھی موجود ہیں‘ لیکن تقسیم سے پہلے کے جو چند مسلمان باقی تھے شرما‘ نے انہیں بھی اپنے شو میں مدعو کیا‘ مگر صرف چند کرکٹرز کو بلایا گیا۔مودی اور اس کے غنڈوں سے ان کی شرکت بھی برداشت نہ ہو سکی۔ مودی سرکار کی طرف سے اتنا دبائو ڈالا گیا کہ بھارتی عوام اپنے ان ممتاز کھلاڑیوں کی شرکت سے محروم رہے اور جو دومسلمان بلائے گئے تھے‘ان میں ایک نامور وکٹ کیپر تھا‘مگر اسے بھی نمایاں نہیں ہونے دیا گیا ۔ اظہر الدین ایک مسلمان کرکٹر کی حیثیت میں بھارت میں نمایاں ہوئے۔
ان جیسا شاندار کھلاڑی آزادی کے بعد منظر عام پر نہیں آیا۔ یقیناً اظہر کے بعد بھی اس میعار کے کھلاڑی آئے ہوں گے‘ مگر اس شو میں اظہر الدین کو آنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ظاہر ہے یہ خبر میڈیا میں نہیں آئی ہو گی‘ لیکن کرکٹ کے تمام کھلاڑیوں نے اظہر کی عدم موجودگی کو یاد کیا ہو گا۔سکھوں میں بہت سے کھلاڑی مقامی ٹیموں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ مگر انہیں بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم میں شاذو نادر ہی شامل کیا جاتا ہے۔متحدہ ہندوستان میں ساری قوموں کے بہترین کھلاڑی منظر عام پر آئے تھے‘ مگر اب حد یہ ہے کہ بھارت کی کسی تقریب یاشو میں سکھوں اور مسلمانوں کو بہت کم مدعو کیا جاتا ہے۔
جہاں تک سڑیل بھارتی وزیراعظم کا تعلق ہے‘ اس نے اپنے دور اقتدار میں ‘ (جو اب ختم ہونے والا ہے) بھارت کی تہذیبی زندگی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا؛اگر کانگرس کی حکومت پھر سے بن گئی تو توقع کی جاسکتی ہے کہ بھارت کے آزاد خیال شہری دلچسپ اور عمدہ تہذیبی تقریبات سے لطف اندوز ہو ں گے۔ آخر میں مودی کا ایک ”کارنامہ‘‘ پیش کر رہا ہوں۔ بھارت میں ایک مظلوم مسلمان لڑکی ‘ ہندوئوں کے جلوس میںسے گزر رہی تھی۔ ایک متعصب ہندو غنڈے نے اسے بڑے ہجوم سے اغوا کیا اور بھرے ہوئے مندر میںاس کے ساتھ زیادتی کی۔ متعصب ہندو بے حیائی کے اس منظر کو ڈھٹائی سے دیکھتے رہے اور جس خبیث ہندو نے یہ مظاہرہ کیا‘اسے بے ضمیر ہندوئوں نے بے شرمی اور اطمینان سے دیکھا اوراس بے حیائی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مودی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
عید پر گائے کوذبح کرنے کے لئے لے جاتے ہوئے ‘ کسی مسلمان کا ہندوسے سامنا ہو جائے تو ہندو غنڈے راستے میں ہی اسے دبوچ لیتے ہیں ۔اگرکچھ مسلمان گائے یا بیل کو لے کر جاتے ہوئے دکھائی دے گئے‘تو متعصب ہندوانہیں گھیرے میں لے کر ‘ کلہاڑوں اور چھروں سے شہادت کا اعزاز حاصل کرنے کا موقع دے دیتے ہیں‘یہ بھارت میں روزمرہ کا معمول ہے۔
نریندرمودی کے دور اقتدار کی اصل کہانیاں‘ دور اقتدار ختم ہونے کے بعد منظر عام پر آئیں گی۔