افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کا وقت قریب ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سینئررہنماملا عبدالغنی برادر کے امریکی حکام سے مذاکرات جاری ہیں۔ان طویل مدتی مذاکرات کا پانچواں دور اختتام پذیر ہو چکا ہے ۔ مذاکراتی ٹیم میں طالبان کی جانب سے شیر محمد عباس ستانگزئی ‘مولوی ضیاء الرحمن مدنی ‘مولوی عبدالسلام حنفی‘شیخ شہاب الدین دلاور‘ملا عبدالطیف منصور‘ملا عبدالمنان عمری‘مولوی امیر خان متقی ‘ملا محمد فاضل مظلوم ‘ملا خیر اللہ خیر خواہ‘مولوی مطیع الرحمن ‘انس حقانی ‘ملا نور اللہ نوری‘ملا عبدالحق وثیق و دیگر شامل ہیں ۔افغان ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ابھی تک معاہدوں پر دستخط نہیں ہو سکے ‘ تاہم غیر ملکی فوج کے انخلاء کی جزئیات طے ہو چکی ہیں۔
اس حوالے سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زادنے گزشتہ روز ٹوئٹ کیا کہ ”قطرمذاکرات سے واضح ہوگیا ہے کہ سب فریق جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘۔ ملابرادر جنہیں ملااخوند بھی کہا جاتا ہے‘قریباً 25سال سے طالبان گروپس سے وا بستہ ہیں۔ملا عبدالغنی اس گروپ میں شامل تھے‘جب 1990ء کے عشرے میں طالبان کی بنیاد رکھی گئی ۔اس گروہ نے 1996ء میں افغانستان کے دارالحکومت پر قبضہ کیا ‘طالبان کی حکومت کو کئی اسلامی ممالک نے قبول کیا اورافغانستان میں سفارتخانے کھولے گئے۔
نائن الیون کے بعد صدر جارج بش نے افغانستان پر حملہ کرنے سے قبل کہا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف ہماری جنگ کا آغاز القاعدہ سے ہوتا ہے‘ لیکن یہ جنگ وہاں پر ختم نہیں ہو گی‘ یہ اس وقت ختم ہو گی ‘جب تک دنیا سے دہشت گردی کا نام و نشان مٹ نہیں جاتا۔ دنیا کے ہر ملک کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ ہمارا ساتھی ہے یا پھر دہشت گردوں کا؟
طالبان دہشت گردوں کو ہمارے حوالے کر دیں یا پھر انہی کے ساتھ موت کے لیے تیار ہو جائیں۔ صدر بش کی اشتعال انگیز تقریر کسے یاد نہیں؟ امریکی طاقت کے نشے میں چور ہوئے‘جدید ہتھیاروں کے ساتھ لیس جنگ لڑنے کا خواہاں تھے۔ دنیا کی سب سے بڑے بارود کے گوداموں کی مالک قوت‘ دنیا کی سب سے غریب اور پسماندہ عوام کو کچلنے جا رہی تھی۔پاکستان شروع سے ہی امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ ٹوئن ٹاورز کا انتقام لینے کی کوششیں عالمی اور خطے کے امن کیلئے خطرناک ثابت ہوں گی‘مگر کسی نے اس معاملے کو ہوشمندی سے لینے کی کوشش نہ کی۔امریکہ اپنی رعونت میں کسی صورت آمادہ ہی نہیں تھا۔ اتنا خون بہانے اور افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے باوجود طالبان کو جھکایا نہیںجا سکا۔
19 سال کے بعد امریکہ طالبان سے جنگ بندی کیلئے مذاکرات کی میز پر آ بیٹھا ہے۔ امریکہ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ افغانستان میں ایک ایسا اڈہ تعمیر کرے‘ جو فوجی اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیاجاسکے۔ امریکہ خلیج کے بعد وسط ایشیائی ذخائر پر قبضے کے خواب بن رہا تھا۔ آج انہی طالبان کے ساتھ امریکہ مذاکرات کر رہا ہے‘ جن کو آنکھیں دکھلایا کرتا تھا۔طالبان فاتحانہ اندازمیں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر براجمان ہیں ‘جبکہ امریکہ شکست خوردہ فریق کے طور پرمعاملات طے کر رہا ہے۔ طالبان نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے کسی صورت شکست تسلیم نہیں کی‘ وہ خالی ہاتھ ایک بڑی سپر پاور کو جھکانے میں کامیاب ہو گئے۔ امریکہ زبردست ٹیکنالوجی کے حصول کے باوجود اپنے دفاعی ‘ عسکری مراکز اور اپنے طیاروں کو طالبان سے نہ بچا سکا۔ جذبے‘ ٹیکنالوجی سے کہیں زیادہ قوی ہوتے ہیں اور ایسی قوتوں کو بھی جھکا دیتے ہیں‘ جن کے گودام ایٹمی اسلحوں سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکہ طالبان مذاکرات کے بعد ثابت ہوچکا ہے کہ دہشت گردی کے نام سے منسوب جنگ ‘علم اور جہالت کی کشمکش نہیں‘ بلکہ انا کے تحفظ کی جنگ تھی۔
طاقت کے وحشیانہ استعمال سے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ القاعدہ بحیثیت تنظیم منتشر ہو گئی‘ لیکن امریکہ کے ناک میں دم کیے رکھا۔طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ سات آٹھ سال کی روپوشی کے بعد اسامہ بن لادن حسرت ناک انجام سے دوچار ہوا‘ لیکن اس کے باوجود افغان جنگ ختم نہ ہوئی‘ بلکہ افغانستان میں امن حسرت بن گیا۔ دہشت گرد گروہوں میں تقسیم ہو گئے‘ امریکہ پر بس نہ چلا تو پاکستان کو نشانے پر دھر لیا۔ اس سارے قضیے میں امریکہ‘ افغانستان اور پاکستان کا بے پناہ جانی نقصان ہوا۔ علاوہ ازیں مالی نقصان اتنا زیادہ تھا کہ اس کے کئی ٹوئن ٹاورز بن سکتے تھے۔امریکہ‘ افغانستان میںبُری طرح پھنس چکا‘ اس وقت حالت یہ ہے کہ وہ کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہے‘ لیکن کمبل اسے نہیں چھوڑ رہا۔ پاکستان نے جب بھی امریکہ کو طالبان سے مذاکرات کا مشورہ دیا‘ امریکہ نے اس کا غلط مطلب اخذ کیا؛ حالانکہ امن‘ امریکہ‘ طالبان براہ راست مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ افغانستان پر چڑھائی مہلک فیصلہ تھا اور اب اس غلطی پر اڑے رہنا مہلک ترین ہے‘جس کی سمجھ امریکہ کو آ گئی ہے۔
دوسری طرف افغان جنگ نے پاکستان کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا‘ترقی کا عمل سست رہا۔ پاکستان کی طرح خونریزی اور دہشت گردی سے تنگ آئے افغان عوام بھی امن چاہتے ہیں۔ اس کیلئے بھارت کا افغانستان میں کردار ختم کرنا ضروری ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کا جاری رہنا بھارت کے مفاد میں ہے‘ کیونکہ اس طرح اس کا سودا خوب بک رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ‘ پاکستان جنگ کا حامی نہیں تھا اور ایک عرصے سے افغانستان میں امن کیلئے طاقت کی بجائے پُرامن مذاکرات کا علمبردار ہے۔ اس کی کوششوں سے طالبان کئی بار مذاکرات پر آمادہ بھی ہوئے‘ لیکن خود امریکی پالیسی میں دوام ا ور استحکام نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاوشیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے دور کا آغاز افغانستان میں جارحانہ حکمتِ عملی سے کیا تھا‘ تاہم اب پہلی بار امریکی انتظامیہ بظاہر پوری یکسوئی کے ساتھ طالبان سے دہشت گرد تنظیم کی بجائے‘ ایک سیاسی طاقت کی حیثیت سے بات چیت کر رہی ہے۔
امریکی سینیٹر ” لنزے گراہم‘‘ نے برملا تسلیم کیاہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے ہم خیال ‘طالبان سے جنگ کی بجائے مصالحت کی حکمتِ عملی کے حامی ہیں۔یہ بات درست بھی ہے‘ تاہم اس سمت میں فیصلہ کُن پیشرفت کیلئے ضروری ہے کہ امریکی قیادت بھی پورے شرح صدر کے ساتھ مذاکرات کے راستے کو اپنانے پر تیار ہو۔ اب‘ جب بظاہر ایسا ہو گیا ‘تو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا پاکستان کیلئے بھی ممکن ہو سکے گا۔