یہ 2013ء کا موسم گرما تھا۔ افغان طالبان کے رہنما ملّا محمد عمر کی وفات کو سترہ دن گزر چکے تھے۔ سترہ دن کے بعد اُن کا بیٹا یعقوب اور بھائی ملّا عبدالمنان زابل میں ملّا محمد عمر کی قبر پر کھڑے تھے اور اصرار کر رہے تھے کہ قبر کھود کر اُنہیں متوفی کا چہرہ دکھایا جائے تاکہ تسلی ہو جائے کہ واقعی ملّا محمد عمر کی وفات ہو چکی ہے۔ ملّا محمد عمر کو اس قبر میں اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے والا عبدالجبار عمری بار بار یعقوب اور ملّا عبدالمنان کو بتا رہا تھا کہ اُس نے ملّا محمد عمر کی تدفین کی وڈیو اسی لئے بنائی تھی کہ کسی کو کوئی شک نہ رہے اور آپ نے وڈیو دیکھ بھی لی ہے لیکن جذباتی بیٹا اور بھائی قبر کھودنے پر اصرار کرتے رہے۔ آخرکار قبر کھودی گئی۔ ملّا محمد عمر کا کفن ہٹا کر اُن کا چہرہ دیکھا گیا۔ بیٹے اور بھائی کو تسلی ہو گئی تو ملّا محمد عمر کو لکڑی کے ایک تابوت میں منتقل کرکے دوبارہ دفن کر دیا گیا کیونکہ اس سے قبل وہ صرف ایک کفن میں دفن کئے گئے تھے۔ یہ زابل کا وہ علاقہ تھا جہاں ملّا محمد عمر نے اپنی زندگی کے آخری سال عبدالجبار عمری کے ساتھ گزارے تھے۔ عمری نے ملّا محمد عمر کے بیٹے اور بھائی کو وہ جگہ بھی دکھائی جہاں اس طالبان رہنما نے اپنا وقت گزارا۔
یہاں اُنہیں ملّا محمد عمر کی چار ڈائریاں ملیں لیکن کوئی باقاعدہ وصیت یا خط نہیں ملا۔ یعقوب نے یہ چار ڈائریاں اپنی تحویل میں لے لیں۔ ملّا محمد عمر کی یہ پناہ گاہ زابل میں امریکی فوجی اڈے سے چند میل کے فاصلے پر تھی اور کئی مرتبہ امریکیوں نے اس پناہ گاہ کے آس پاس چھاپے بھی مارے لیکن وہ ملّا محمد عمر کو زندہ گرفتار نہ کر سکے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو نیدر لینڈز کی ایک صحافی بیٹ ڈیم کی کتاب ’’دی سیکرٹ لائف آف ملّا عمر‘‘ میں سامنے آئے ہیں۔ بیٹ ڈیم نے یہ کتاب پانچ سال کی تحقیق کے بعد لکھی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس کتاب میں کئے گئے اس دعوے کی تصدیق کر دی ہے کہ ملّا محمد عمر نے اپنی زندگی کے آخری سال افغانستان کے صوبہ زابل میں گزارے اور وہیں 23اپریل 2013ء کو اُن کا انتقال ہوا تاہم یہ کتاب ڈچ زبان میں شائع ہوئی ہے، اس کا انگریزی ترجمہ ابھی مارکیٹ میں نہیں آیا۔ مجھے اس کتاب کے کچھ صفحات کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کا موقع ملا ہے۔
یقیناً بیٹ ڈیم کو عبدالجبار عمری کے ذریعہ ملّا محمد عمر کے آخری ایام کے متعلق اہم تفصیلات ملی ہیں لیکن مجھ سمیت کئی پاکستانی اور افغان صحافیوں کے لئے بیٹ ڈیم کی کتاب میں کوئی ہوشربا انکشاف موجود نہیں ہے۔ افغان حکومت نے اس کتاب میں کئے گئے دعوئوں کو مسترد کر دیا ہے لیکن آنے والے وقت میں نہ صرف طالبان بلکہ امریکہ کو بھی اس کتاب کا بہت فائدہ ہوگا۔ کچھ پاکستانی بھی اس کتاب میں سے فائدہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ کتاب امریکی سی آئی اے کے ان دعوئوں کو تو جھوٹ ثابت کرتی ہے کہ ملّا محمد عمر پاکستان میں روپوش تھے لیکن اس کتاب کے مطابق ملّا محمد عمر کی چار بیویوں سمیت کئی طالبان رہنما پاکستان میں رہتے تھے۔ ملّا محمد عمر کی بیویوں کی تعداد کے بارے میں ڈچ صحافی کا دعویٰ غیر مصدقہ ہے۔ ڈچ صحافی نے یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا سمیع الحق مرحوم یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ملّا محمد عمر دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ مولانا مرحوم نے اپنی انگریزی تصنیف ’’افغان طالبان، وار آف آئیڈیالوجی‘‘ میں واضح طور پر لکھا کہ اُن کے مدرسے میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ ملّا محمد عمر یہاں زیر تعلیم تھے۔
بیٹ ڈیم نے یہ بالکل درست لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر نائن الیون سے پہلے صرف ایک آدھ دفعہ پاکستان آئے تھے اور نائن الیون کے بعد کبھی پاکستان نہیں آئے۔ ڈچ صحافی کو اس کتاب کی تکمیل میں افغان حکومت نے بھرپور معاونت فراہم کی اور ملّا محمد عمر کے آخری وقت کے ساتھی عبدالجبار عمری کے ساتھ اُس کی ملاقات بھی افغان انٹیلی جنس کے ذریعہ ہوئی کیونکہ عمری انٹیلی جنس کی حراست میں ہے لیکن بیٹ ڈیم نے افغان حکومت کے مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا بلکہ جو سچ سمجھا وہ لکھ ڈالا۔ کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور موجودہ صدر اشرف غنی سمیت افغان انٹیلی جنس کو یہ علم تھا کہ ملّا محمد عمر زابل میں روپوش ہیں اور یہ اطلاعات امریکیوں کو بھی فراہم کی گئیں لیکن وہ ہمیشہ یہ اطلاعات نظر انداز کرتے اور کہتے کہ ملّا عمر پاکستان میں روپوش ہے۔
کیا یہ پاکستان سے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی نفرت تھی یا شاہانہ غرور جس کے باعث ایک ’’سپر پاور‘‘ 2001ء سے 2015ء تک یہ جھوٹ بولتی رہی کہ ملّا محمد عمر پاکستان میں ہے؟ کیا پاکستان کی حکومت کبھی باقاعدہ طور پر امریکہ سے یہ پوچھے گی کہ آپ سالہا سال تک ہم پر جھوٹا الزام کیوں لگاتے رہے؟ کیا امریکہ ویسا ہی جھوٹ نہیں بولتا رہا جیسا جھوٹ آج کل بھارت کی طرف سے بالاکوٹ میں جیش محمد کے مدرسے کی تباہی کے بارے میں بولا جا رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا ہمیں جواب چاہئے لیکن شاید ہماری حکومت کوئی جواب نہ دے۔ ہمیں یہ جواب خود تلاش کرنا پڑیں گے۔
بیٹ ڈیم کی کتاب کے مطابق عبدالجبار عمری نے بار بار ملّا عمر کو پیشکش کی کہ وہ اُنہیں پاکستان لے جا سکتا ہے لیکن ملّا عمر نے کہا کہ کچھ بھی ہو جائے، میں پاکستان نہیں جائوں گا۔ وہ پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ نائن الیون کے بعد پاکستانی ریاست کی پالیسیاں تھیں۔ کتاب کے مطابق ملّا محمد عمر نے 5دسمبر 2001ء کو روپوش ہونے سے قبل ملّا عبید اللہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ یہ وہی ملّا عبید اللہ ہیں جو 2010ء میں پاکستان کی حراست میں موت کا شکار ہوئے۔ بیٹ ڈیم کی کتاب میں کہا گیا کہ افغان طالبان اور القاعدہ کے نظریات میں فرق ہے۔ اس کتاب میں ملّا محمد عمر کا تعلق نقشبندی سلسلے کے صوفیاء سے جوڑا گیا ہے اور مصنفہ نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر زندگی کے آخری ایام میں خود بھی ایک صوفی بن چکے تھے۔
اس کتاب کی مدد سے اقوام متحدہ افغان طالبان پر عائد پابندیاں ختم کر سکتی ہے اور یوں افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کا مذاکراتی عمل مزید آگے بڑھ سکتا ہے۔ آج کل امریکی انتظامیہ کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کا بار بار اعتراف کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ بیٹ ڈیم کی کتاب کے مطابق جب افغان طالبان کی کوئٹہ میں موجود قیادت یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ قطر میں طالبان کا دفتر کھولا جائے یا نہیں تو ملّا محمد عمر سے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے دفتر کھولنے کی حمایت کر دی۔ اس طرح یہ کتاب طالبان اور امریکہ میں مذاکرات کے عمل کو ملّا محمد عمر کی تائید فراہم کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ طالبان قیادت کی کوئٹہ میں موجودگی بھی ثابت کرتی ہے۔ پاکستان کی طرف سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کتنی ہی کارروائیاں کر لی جائیں لیکن امریکہ کا پاکستان پر دبائو ختم نہیں ہوگا۔
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں بریک تھرو کے بعد کابل میں جو بھی حکومت آئے گی امریکہ اُس حکومت کو تعمیر نو کے لئے مالی امداد کے نام پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ خدارا! یہ مت سمجھئے گا کہ مجھے امریکہ سے کوئی ذاتی بیر ہے۔ بالکل نہیں! میں تو دنیا بھر میں امن چاہتا ہوں لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امریکہ کا اصل مسئلہ طالبان یا کالعدم تنظیمیں نہیں بلکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے اس لئے خاطر جمع رکھیے۔ ڈچ صحافی کی کتاب کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ جو اُس نے لکھا وہ ہم 2006ء سے کہہ رہے تھے۔ پاکستان کو امن پسندی کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں جھوٹ بولنے والوں سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔