عمران خان ڈاکٹرائین

(عنوان کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے ۔ڈاکٹرائین( doctrine)سے مراد غیر تحریری نظریات کا سیٹ یا ایسے چند اصول جو غیر متنازع ہوں۔جس کے ذریعے کیسی جماعت ،گروپ اورقوم کی سمت درست کرنا مقصود ہو۔عمومی طور پراتھارٹی رکھنے والا ۔مطلب با اختیار عہدے دارجیسے پاکستان کے آرمی چیف اور وزیراعظم ہیں کے ایسے غیرتحریری اصولوں کو کہا جاتا ہے۔جن اصولوں کے تحت وہ ملکی و قومی سمت درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔)

ملکی تعمیر کا خواب سیاسی قیادت کے ویژن اور حکمت ہی سے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔کوئی غیر ریاستی فورس اور غیر سیاسی تنظیم کیسی ملک ،قوم ،خطہ اور طبقہ کے لئے کبھی سود مند ثابت نہیں ہو سکی ہے ۔اس امر کی تاریخ گواہ ہے۔ ملکی ترقی ،قوم کی تعمیرکے امور یعنی کہ نیشن بلڈنگ سیاسی قوتیں ہی کرتی ہیں۔جن معاشروں میں سیاست ،سیاسی مکالمہ دم توڑ جاتا ہے۔وہاں دلیل ،منطق اور برداشت بھی ختم ہوجاتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ملک میں مکالمے ،بات چیت کی فضا نہیں ہے۔دلیل اور منطق سے بات کرنے کی بجائے گالم و گلوچ کا کلچر جڑ پکڑ گیا ہے۔مذہبی موضوعات پر معمولی بھول پر بھی کافر اور زندیق آسانی قرار دینے جیسی عام روایات آگے بڑھتی نظر آتی ہیں۔ملک دشمن اور غداری کے الزامات لگانا جیسے فیشن بن گیا ہو۔سیاسی جماعتیں ،سیاسی کارکن اور قیادتیں کئی قسم کے خوف میں مبتلا ہیں۔بات کرنے سے گبھراتے ہیں۔خوف بھی درست ہیں ۔بیسیوں موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں۔قاتل معتبر اور مقتول معلون قرار پاتے ہیں۔ایسے حالات اور ماحول میں تعمیرکا خواب دیکھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

افغانستان میں امریکی سرد جنگ کا عہد ، بھارت کے ساتھ مسلہ کشمیر ہو یا اندرون ملک اقتدار کی لڑائی ہو۔بدقسمتی سے وطن عزیز میں لمبے عرصے سیسیاسی قوتوں کی بجائے غیر سیاسی تنظیموں کوسپیس دی جاتی رہی ہے۔جس کے نتایج ہمارے سامنے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس سیاسی تنظیمیں ساری جدوجہد ریاست کو مضبوط کرنے کیلئے کرتی ہیں۔جس کا ادراک بہت دیر بعد ہوا ہے۔چاہے بین الاقوامی دباؤ سے یا خود حکومت اور ریاست اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اب بھل صفائی ضروری ہوچکی ہے۔دیر سے ہی سہی مگر درست فیصلہ ہے اور عہد کی ضرورت ہے ۔فیصلے میں حکومت اور عساکر ایک پیج پر ہیں۔

اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ محض دکھاوے کی کارروائی کی بجائے ٹھوس اقدام ہونگے اور عسکریت پسندی کاباب مستقل بنیادوں پر بند کردیا جائے گا۔عمران خان ڈاکٹرائین میں معاشی ترقی اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے دعوے تو شاید دعوے ہی رہیں لیکن یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ملک سے انتہا پسندی،عدم برداشت اور شدت پسندی جیسے بگاڑ ضرور ختم ہونگے۔عوام نے دیکھا کہ ایک مذہبی طبقہ کی جماعت نے ملک میں ہیجان بپا کر رکھا تھا۔آج وہ نظر نہیں آرہی ہے۔اسی طرح بعض جماعتیں مضبوط مورچے بنائے بیٹھی تھیں اور ان کایہ ماننا تھا کہ کوئی مائی کا لال ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا ہے۔کھلی آنکھوں نے دیکھا ہے کہ پابندی ہی نہیں لگی بلکہ ان کے مراکز بحق سرکار ضبط ہوئے ہیں ۔

املاک و اثاثوں پر اس وقت حکومتی کنٹرول ہے۔کوئی مزاحمت ،کوئی مظاہرہ ،احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔یقینی بات ہے کہ حکومت کے تیور دیکھ کر ہی کیسی نے چوں چرا نہیں کی ہے۔ورنہ کون نہیں جانتا ہے کہ حکومتیں خوف کھاتی رہی ہیں ۔پہلے بھی کئی بار بین الااقوامی دباؤ بھی آیا مگر حکومتیں کاغذی کارروائی کرکے ٹوٹل پورا کرتی تھیں۔ملکی تاریخ میں عمران خان کی پہلی حکومت ہے جس نے ایسا ہاتھ ڈالا ہے کہ کیسی کو بولنے کی مہلت ملی اور نہ جرات ہوئی ہے۔ملکی مفاد میں کیے جانے والے فیصلے ایسی نوعیت کے ہوں تو ملک آگے بڑھتے ہیں مصالحت اور کمزور فیصلے مزید بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔عمران خان نے یہ ثابت کیا ہے کہ قوت فیصلہ او بہتر حکمت عملی ناممکن کو ممکن بنا دیتی ہے۔حالیہ جنگی صورت حال سے برات اور خطے میں امن کی کوشش بھی کوئی سہل یا معمولی فیصلہ نہیں تھا ۔لیکن عمران خان نے کر دیکھایا ۔ابھی شروعات ہیں۔مزید غیر مقبول اور بڑے فیصلے عمران خان ڈاکٹرائین کے متقاضی ہیں۔  

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے