ایک تحقیق کے مطابق 2018 میں پاکستان کے اندر پرائمری لیول پر انرول ہونے والے بچوں کا تناسب 92 فیصد ہے. ہر سال انرول ہونے والے بچوں کے تناسب میں 2.72 فیصد اضافہ ہورہا ہے.یعنی ہر سال 100 میں سے تقریبا 3 بچے پچھلے سال کی نسبت زیادہ انرول ہورہے ہیں. یاد رہے کہ یہ تناسب پرائمری لیول پر ہے. سیکنڈری لیول تک پہنچتے پہنچتے یہ تعداد ایک تہائی کم ہوجاتی ہے. جبکہ کالج اور یونیورسٹی سطح پر یہ تناسب نصف سے بھی کم رہ جاتا ہے. یہ بجائے خود ایک بہت بڑا المیہ ہے. لیکن یہ ہمارے آج کے کالم کا موضوع نہیں ہے. ہمارا آج کا موضوع نوجوانوں اور ان کے والدین کو کیرئیر کے انتخاب کے حوالے سے چند مفید باتیں بتانا ہے. تدریس کے پیشے سے وابستہ ہونے کی بنا پر طلباء سے اکثر اس موضوع پہ بات ہوتی رہتی ہے. یہ بات انتائی قابل افسوس ہے کہ ہمارے بچوں بلکہ ان کے والدین تک کو بھی یہ پتہ نہیں کہ ہوتا کہ آگے چل کر ہم نے/ہمارے بچے نے کیا بننا ہے. والدین اور بچوں ہی پہ کیا موقوف،خود اساتذہ کی اکثریت کو بھی علم نہیں کہ کونسلنگ کس چڑیا کا نام ہے.
یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب آپ کلاس کے بچوں سے پوچھتے ہیں "بڑا ہوکے کیا بنوگے؟” تو تقریبا 70 فیصد کا جواب ہوتا ہے ” ڈاکٹر” . 10 فیصد ” انجینئیرنگ ” کے شعبے کا نام لیتے ہیں، جبکہ تقریبا 5 فیصد بچے استاد، پائلٹ یا فوجی وغیرہ بننا چاہتے ہیں. باقیوں کا جواب ہوتا ہے”ابھی سوچا نہیں” حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر، انجنئیر یا پائلٹ بننا ان کا خواب نہیں ہوتا.یہ الفاظ انہوں نے صرف سنے ہوتے ہیں. ان پیشوں کے علاوہ ان کے ذہن میں کسی اور پیشے کا نام آتا ہی نہیں. انہیں کسی نے بتایا ہی نہیں ہوتا کہ ان کے علاوہ بھی پیشے ہوتے ہیں.
ایسے بچے عموما کنفیوز ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں.اور آگے چل کر نہ صرف یہ کہ ان کا ڈاکٹر، انجنئیر وغیرہ بننے کا خواب پورا نہیں ہوتا بلکہ ان میں سے اکثر تعلیمی میدان میں ناکام ہوجاتے ہیں اور پڑھائی ہی چھوڑ دیتے ہیں. ہم نے ایسے کئی بچوں کو دیکھا ہے جو مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتے تھے لیکن بن گئے مستری،ڈرائیور،پھل فروش یا بہت ہوا تو کسی پرائیویٹ سکول میں 4,5 ہزار کی نوکری پر استاد بھرتی ہوجاتے ہیں.
دراصل یہ ان بچوں کا قصور نہیں ہے.قصور ان کے والدین اور اساتذہ کا ہے جنہوں نے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانا نہ ان صلاحیتوں کو نکھارا اور نہ ہی ان کو صحیح ٹریک پر لانے میں اپنا کردار ادا کیا.
لیکن ٹھرئیے، رکئیے! قصور ان کے والدین اور اساتذہ کا بھی نہیں ہے.وہ بیچارے بھی تو اسی معاشرے کے باسی ہیں.ان کی بھی تو کسی نے کونسلنگ نہیں کی ہے.بھلا وہ کسی کی کیا کونسلنگ کر سکیں گے؟
حضرات! مسلہ تو ہم نے بیان کردیا.اب اس مسلے کا حل کیا ہے، یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے.
بات یہ ہے کہ کچھ کام حکومت کے کرنے کے ہیں اور کچھ ہمارے کرنے کے ہیں. تب جاکر یہ بیل منڈھے چڑھے گی. حکومت کو چاہئے کہ ملک بھر میں جیسے ٹیچرز ٹریننگ کے ادارے ہیں، اسی طرح کیرئیر کونسلنگ کے ادارے بھی قائم کرے جو ایسے ماہرین پیدا کرسکیں جو کیرئیر کونسلنگ کرسکیں.اس وقت میں ملک میں ایسے ادارے اور ماہرین موجود ہیں جو اس شعبے میں کام.کررہے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے. حکومت کو چاہئے کہ ان اداروں اور ماہرین کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو وسائل مہیا کرے تاکہ وہ اس شعبے میں مزید کام.کرسکیں.
اسی طرح کیرئیر کونسلنگ کو بطور مضمون نصاب میں شامل.کیا جائے.جس میں اس فن کے بارے میں مفید معلومات موجود ہوں اور اس فن کو عملی طور پر استعمال کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہوں. جب کیرئیر کونسلنگ کو بطور مضمون پڑھایا جائیگا تبھی ہمیں اس کی افادیت کا اندازہ ہوگا.
یہ تو ہوگئے حکومت کے کرنے کے کام. اب ہمیں کیا کرنا ہے، یہ ملین ڈالر کا سوال ہے.
تو صاحبان! سب سے پہلے تو والدین کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ان کے بچے کا رجحان کس طرف ہے. ان کو بچے پر اپنی مرضی تھوپنے کی بجائے اس کے شوق اور دلچسپیاں جاننی ہونگی. اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچے کا رجحان ادب کی طرف ہوتا ہے اور والدین اسے سائنس کی طرف کھینچ رہے ہوتے ہیں. بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے اور والدین اسے انجنئیر بنانے پہ تلے ہوتے ہیں.
البتہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ بچے کا میلان کس طرف ہے؟ اس سلسلے میں اس کے سامنے مختلف موضوعات کے متعلق مواد رکھے جائیں.مثلا سائنس، ڈرائنگ، طب، انجنیئرنگ وغیرہ جیسے شعبوں کے متعلق کتابیں،ڈاکومینٹریز، کارٹونز وغیرہ اور مشاہدہ کیا جائے بچہ کس قسم کے مواد میں دلچسپی لے رہا ہے.اگر بچے کا رجحان فوج سے متعلقہ مواد کی طرف ہے تو سمجھ جائیے کہ آپکا بچہ فوجی بننا چاہتا ہے. اب یہ آپ پر ہے کہ بچے کے اندر پنپتی ہوئی اس ننھی کونپل کو پروان چڑھاتے ہیں یا پیدا ہوتے ہی اس کا قلع قمع کردیتے ہیں.
بچے کا ذہنی میلان جاننے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کچھ عرصے تک بچے کے معمولات، اس کی دلچسپیوں کا بغور مطالعہ کریں.آپ کو خود بخود پتہ چل جائیگا کہ اس کا ذہنی رجحان کس طرف ہے.
اس کے علاوہ مختلف طریقے اپنا کر بچے کے شوق کو مہمیز کیا جاسکتا ہے. مثلا ایک بچے کو کمپیوٹر پسند ہے تو آپ اسے یہ سہولت گھر میں مہیا کرکے اس کو اس شعبے میں اپنا کیرئیر بنانے پر ابھارسکتے ہیں.
کیرئیر کونسلنگ کا اک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ دیکھیں بچے کے گریڈز کس مضمون میں اچھے آتے ہیں. مثلا اگر وہ ریاضی میں اچھے نمبر لیتا ہے تو اس کو ریاضی ہی پڑھائیں آگے چل کر. اور اسی شعبے میں ہی اس کا کیرئیر بنانے کی کوشش کریں.
یاد رکھیں کونسلنگ انتہائی ضروری ہے. بنجمن فرینکلن کا کہنا ہے
If you fail to plan, you are planning to fail.
یعنی اگر آپ مستقبل کی منصوبہ بندی میں ناکام رہے ہیں تو آپ ناکام ہونے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔۔۔
کیرئیر کونسلنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ملک کے ہر شعبے میں ماہرین مل جائیں گے اور یہ جو بے روزگاروں کی فوج پروان چڑھ رہی ہے اس سے چھٹکارا مل جائیگا۔۔۔
کالم کو طوالت سے بچاتے ہوئے ہم ذیل میں سے کچھ شعبوں کے نام لکھ رہے ہیں۔۔۔ جو اپکو کیرئیر کے انتخاب میں مدد دے سکتے ہیں۔۔۔
طب، انجینئرنگ ، پولیس ، فوج ، درس و تدریس ، عدلیہ ، اعلی تعلیم ، سول سروس، اٹامک انرجی کمیشن، آئی ٹی ، جنرلزم، شوبز ،کھیل، کالم نگاری ، ناول نگاری۔ تجزیہ نگاری، پراپرٹی ڈیلنگ ، ٹورزم ، ڈسٹرکٹ منجمنٹ، فارن سروس۔۔۔ عرض درجنوں ایسے شعبے ہیں جس میں آپ اپنا کیرئیر بنا سکتے ہیں اور ایک بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔۔۔