خبر ہےکہ ایوا نِ پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ سمیت ارکان ِ ایوان کی تنخواہوں میں اضافے کابِل محض 5منٹ میں منظور ہوگیا۔
ترجما نِ ایوا ن کاکہناہے کہ بِل 5 منٹ نھیں بل کہ 21 روز کے غور وفکرکے بعد منظورہواہے۔
یہ بھی کہاجارہاہے کہ وزیرِ اعلیٰ کے لیے تاحیات گھر کی منظوری خود وزیرِ اعلیٰ کی خواہش پردی گئی لیکن ہمیں یہ ماننے میں ذرا تامل ہے کہ بُزدار صاحب چوں کہ عمران خان صاحب کا عمدہ ترین انتخاب ہیں سووہ ایساسوچ ہی نھیں سکتے۔انشا جی سے معذرت کرتے ہوے
؎
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں ،یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم بزدار جی کانام نہ لو کیابُزدار جی سودائی ہیں
فواد چوہدری جو کہ وزیر اطلاعات ہیں اُنھوں نے اولاََ اس منظوری کوخوش آئند قراردیا نیز بتایاکہ اس سے درمیانے طبقے کے سیاست میں آنے کارجحان پیداہوگا۔بعد میں کپتان کے نظریہ کےساتھ مذاق قرار دے دیا۔ وزیرِ اطلاعات نہایت زیرک انسان ہیں ایسے پیچیدہ معاملات میں پنہاں حکمتوں کوجانتے ہیں اس لیے تضاد کاسبب عمران خان بنے کہ اُنھوں نے اس بِل کی منظوری پر تشویش کااظہارکیا۔
کچھ کندذہن عناصر معاملے کو محدود تناظرمیں دیکھ رہے ہیں جو کہ عوامی نمائندگان کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ معاملہ ایسانھیں جسے ہم محدود نظرسے دیکھیں بل کہ اس کے لیے وسعت نظری وذہنی تحرک کا ہونا ضروری ہے۔ اسی تناظرمیں چند باتیں نذرِ قارئین ہیں :۔
عمران خان کا جومنصوبہ براے”نیاپاکستان” ہے یہ سب اسی سلسلے کی پہلی کاوش ہے جس پرتنقیدبِلا جواز ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عمران خان کے نظریاتی فرماں بردار ہیں اور ان کے ہردوسرے جملے کے بعد "عمران خان کانظریہ وسوچ کے مطابق کام "کااعادہ شامل ہوتاہے سو ایسے شخص بارے منفی سوچ نظریاتی کارکنوں کی توہین ہے۔
یہ دیکھیے کہ عوامی نمائندوں کے ایوان میں کوئی ایک شخص بھی ایسانھیں جسے اس اضافے پر کوئی تشویش ہویعنی حز بِ اقتدار و اختلاف کا اس اہم معاملے پر اِجماع ہے اورایسا کبھی کبھار ہوتاہے تو ہمیں اس فیصلے کو امتِ پنجاب وپاکستان کے لیے خوش آئند سمجھنا چاہیے نہ کہ اس کو غلط رُخ دینا چاہیے۔
عمران خان کے "نیاپاکستان "میں گھروں کی فراہمی اور جنوبی پنجاب کی بہتری اہم حیثیت کے معاملے ہیں ۔بُزدار صاحب ایک طرف تو غریب الدیار بھی ہوے ہیں سوگھر مِلنا لازم ہے۔دوسرایہ کہ بُزدار صاحب پرویز الہی یا شہباز شریف جیسے امیر کبیر حاکم نھیں بل کہ بوریانشین انسان ہیں اور خان دانی پسِ منظر یہ ہےکہ ان کے گھر بجلی تک نھیں ۔ ایک ایسے شخص کو مراعات دینا گویا دو طرح سے قابلِ تحسین ہے پہلا یہ کہ اصلاح اپنے سے شروع کی جاتی ہےہمیں خوش ہونا چاہیے کہ یہ بِل اس کی زندہ مثال ہے۔ دوسرااس سے جنوبی پنجاب کووسائل کی فراہمی وترقی کامعاملہ بھی سنجیدگی سے شروع ہوتانظر آرہاہےکہ وہاں کے لوگوں پرقومی وسائل خرچ کرنے میں "تختِ لاہور” کوکوئی مسئلہ نھیں ۔
ایوا ن کے دوسرے ارکان بھی زیادہ تر نچلے یا درمیانے طبقے سے ہیں سو ان کی تنخواہوں میں اضافہ کی مخالفت اشرافیہ ذہنیت کی مفلوک الحال طبقوں کے نمائندوں سے حسد کی علامت ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نچلے یادرمیانے طبقے کو خوش حال نھیں دیکھنا چاہتے سو اس طرح کی باتیں پھیلارہے ہیں کہ عوامی مسائل کو نظرانداز کرکے اپنے مفاد کے لیے کوشش کی جارہی ہے جو کہ پرانے پاکستان سے مختلف نھیں ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ عوامی نمائندے خوش حال تو مطلب عوام خوش حال کیوں کہ بہر حال یہ عوام کے چُنے ہوے لوگ ہیں اور ان کے فیصلے عوامی مفاد میں ہی ہوتے ہیں ۔عوامی نمائندوں کے اس فیصلے پر تنقید کر کے کچھ لوگ ایسی فضا بناناچاہتے ہیں کہ جس سے عوام کا اعتماد جمہوری قوتوں سے اُٹھ جاے اور غیرجمہوری قوتوں سے ہی امیدیں لگاے۔ہم ایسے عناصر کو بتاے دیتے ہیں کہ ان کی سازشیں کام یاب نھیں ہوں گی نہ ہی وہ جمہوری قوتوں پر عوامی اعتماد جو بہ مشکل بحال ہورہاہے کم کرسکتے ہیں۔
عثمان بزدار صاحب اور ایوانِ پنجاب کاہررکن اس پرمبارک باد کامستحق ہے کہ وہ نئےپاکستان کی طرف پہلاقدم متفقہ طور پر اٹھا کر سُر خ رو ہوے ہیں جس سے ان کا عوام میں مقام بھی بلند ہواہے۔ رہے وزیرِ اعظم صاحب جنھوں نے بِل کی منظوری پر تشویش ومایوسی کاظہار کیاہے اُنھیں اس کی افادیت کااندازہ کچھ غور وفکر کے بعد ہوجاے گا۔کیوں کہ اس معاملے پر وہ جمہوریت دشمنوں کی تنقیدکااثر لے کر جلد بازی میں بیان دے گئے فرصت میں معاملے کہ تہہ تک پہنچیں گے تو ارکان کی بصیرت وحکمت کے قائل ضرور ہوجائیں گے ۔