اسد منیر نے خود کشی کیوں کی

پاکستان کے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے سابق سینئر افسر بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی ہے۔اسلام آباد پولیس کے مطابق انھیں میت کے قریب سے ایک خط بھی ملا ہے جس میں مبینہ طور پر اسد منیر نے نیب کی طرف سے ناجائز حراساں کیے جانے کی شکایت کی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان سے نوٹس لینے کی درخواست کی ہے۔

اردو نیوز سے بات کرتے اسلام آباد پولیس کے ترجمان خالد اعوان نے تصدیق کی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 174 کے تحت تحقیقات کی جا رہی ہیں اور شواہد اکھٹے کیے جا رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق اسد منیر کی لاش اسلام آباد کے علاقے ڈپلومیٹک انکلیو میں ان کے فلیٹ پر پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی ہے۔

اسد منیر سنہ 2006 سے 2010 تک سی ڈی اے کے ممبر اسٹیٹ رہے اور اس سے قبل نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر راولپنڈی اور پاک فوج کے انٹیلی جنس کے شعبہ میں بھی پشاور کے ڈائریکٹر کے طور پر تعینات رہے۔

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسد منیر کے سگے بھائی کرنل ریٹائرڈ خالد منیر نے بریگیڈئر اسد منیر کی طرف سے لکھے گئے خط کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ کل یہ خط خود چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے کریں گے۔

اس سے قبل جمعرات کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اسد منیر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی تھی، ان پر نیب نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کے سیکٹر ایف 11 میں پلاٹ بحال کرنے کا الزام لگایا تھا۔

خط کے مطابق اسد منیر نے لکھا کہ ’میں اس لیے خودکشی کر رہا ہوں کہ میں میڈیا کے سامنے ہتھکڑی لگا کر پریڈ کیے جانے کی شرمندگی سے بچنا چاہتا ہوں۔ معزز چیف جسٹس صاحب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ نیب کے رویے کا نوٹس لیں تاکہ دوسرے حکومتی افسران کو ان جرائم کی سزا نہ دی جائے جو انہوں نے کیے ہی نہ ہوں۔‘
اسد منیر کا نام نومبر 2017 میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ انہوں نے خط میں لکھا کہ ’نیب نے گذشتہ ایک سال میں میرے خلاف پانچ مختلف تحقیقات شروع کیں۔‘

اس خط کے مطابق نیب نے ان کے خلاف 2008 میں ایک پلاٹ بحال کرنے پر ریفرنس دائر کیا جبکہ انہوں نے پلاٹ بحال نہیں کیا تھا بلکہ یہ کام ان کی سفارش پر چئیرمین سی ڈی اے نے کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سفارش اس لیے کی تھی کہ ان کے خیال میں سی ڈی اے کی بحالی پالیسی کے عین مطابق تھا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے