چودہ اور پندرہ مارچ کی درمیانی شب اسلام آباد کے ایک گھر میں بریگیڈئیرریٹائرڈ اسد منیر اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے۔ وہ سخت پریشان تھے۔ انہوں نے اپنی پستول نکالی اور اسے کنپٹی پر رکھ کر فائر کرنے کی کوشش کی۔
اہلیہ جاگ رہی تھیں انہوں نے پستول پکڑ لیا اور اسد منیر کو سمجھایا بجھایا۔ اسد بضد تھا کہ اس کو ہتھکڑی لگا کر اسکی توہین کی جائے گی۔
اہلیہ نے تسلی دی اور سلا دیا۔ وہ سمجھیں کہ شاید اب سب نارمل ہوگیا ہے۔ دونوں سوگئے۔ مگر اہلیہ کو کیا پتہ تھا کہ اسد منیر کے ذہن میں تو طوفان بپا تھا۔ اس نے اپنا آخری خط بھی لکھ رکھا تھا۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی اور شاید وہ اپنی موت کے نت نئے منصوبے بنا رہا تھا۔
اسد منیر کا ملازم صبح چار بجے اٹھ کر چائے بناتا ہے کیونکہ وہ تہجد پڑھنے کا عادی ہے۔ صبح اسد کی اہلیہ بھی چار بجے اٹھیں تو دیکھا اسد موجود نہیں تھا۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آواز دی مگر تیسرے کمرے میں اسد کی لاش چھت سے لٹک رہی تھی اس کی دنیا لٹ چکی تھی۔ اسد منیر کا ایک بھائی کرنل ریٹائرڈ خالد منیر ہے۔ بڑا سمجھدار اور دیدہ ور۔ اسے خبر دی گئی۔ لاش پوسٹمارٹم کے لیے اسپتال پہنچائی گئی اور اسد منیر کی موت کی خبر کچھ ہی دیر میں ٹی وی چینلزکی سرخیوں کا حصہ بن گئی۔
جولوگ اسد منیر کو جانتے ہیں ان سب کے لیے اسد منیر کی خودکشی کی خبر شاید اتنی حیران کن نہ تھی۔ وجہ سب کو معلوم ہے کہ اسد منیر اپنی عزت کا کس قدر قائل تھا۔
وہ اپنی توہین برداشت کرتا تھا نہ کوئی ایسا کام کرتا تھا جس سے اسے پشیمانی ہو۔ اس نے 1971میں فوج میں کمیشن لیا تھا۔ 1998میں ملٹری انٹیلی جنس میں آیا اور سال 2002میں وہ خیبر پختونخوامیں آئی ایس آئی کا کمانڈر تھا۔ اس کا ایک نام تھا عہدے کا اثر ایسا تھا کہ بڑے بڑے لوگ اس کے نام سے ڈرتے تھے مگر وہ ذاتی طورپر مختلف انسان تھا۔مگر وہ مختلف آدمی تھا۔ دوستوں کا دوست، قہقہوں کا شہزادہ۔
گپ شپ کا شیدائی اور گیان کا طالب۔ اسے اس کی خدمات کے عوض 2003میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ ایجنسی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سال 2006سے سال 2010تک سی ڈی اے شعبہ اسٹیٹ کا ممبر تھا۔ یہاں کرپشن عروج پرتھی مگر اسے خدا نے سب دے رکھا تھا۔ نام اور پیسے کے ساتھ ساتھ دو پیاری بیٹیوں کی دولت بھی اس کے پاس تھی۔ جن کی اس نے وقت پر شادی بھی کرڈالی تھی۔
وہ خود ذمہ داریوں سے آزاد تھا روپے پیسے کی ضرورت نہ تھی۔ سی ڈی اے آکر اس نے کرپشن بند کی شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ کرپشن کرتا تو کرتا بھی کس کے لیے ؟سی ڈی اے کی کوریج کے لیے مشہورصحافی راجہ خالد بتاتے ہیں کہ اسد منیر بڑا سیدھا افسر تھا۔ کرپشن کا مخالف اور سخت ایماندار۔ سی ڈی اے میں ملازمت مکمل ہوئی تو وہ ایک غیر سرکاری ادارے سے منسلک ہوا اور معمول کی زندگی گزارنے لگا۔ وہ میڈیا پر انٹرویوز دیتا۔ اخبارات میں مضامین لکھتا اور دوستوں سے گپیں لگاتا۔ میری اسد منیر سے یاد اللہ ان کے مضامین پڑھ کر ہوئی۔
جب کبھی فوج یا انٹیلی جینس کے بارے کچھ سمجھنا ہو اکثر اسد بھائی سے رابطہ رہتا۔ اسد منیر اپریل 2017سے پریشان تھے۔ کیونکہ نیب نے اسے تنگ کرنا شروع کررکھا تھا۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے ایک شہری کا سی ڈی اے کی طرف سے منسوخ شدہ پلاٹ قائدے کے مطابق بحال کرنے کی تحریری سفارش کی تھی جسے اس وقت کے چیئرمین نے درست سمجھتے ہوئے بحال کردیا تھا۔ اسی جرم کی پاداش میں نیب راولپنڈی کے حکام اسد منیر کو بلاتے ، انتظار کرواتے الٹے سیدھے سوال کرتے اور گھر بھیج دیتے۔
وہ اس کام کے لیے اپنے تعلقات استعمال کرتا نہ اپنی سابقہ طاقتور اداروں کا رعب۔ یہ شرافت ہی تھی کہ اسکا نام نیب کی سفارش پر نومبر 2017میں ای سی ایل پر ڈال دیا گیا۔ سال 2018میں اس کے خلاف کیسز بنائے جانے لگے اور نیب کی پریس ریلیز میں اس کا نام نمایاں کرکے شائع کیا گیا۔
وہ اس سے بہت پریشان تھا دو روزقبل بھی نیب کی طرف سے جاری اعلامیے میں اس کا نام لیا گیا تھا۔ وہ ہر بار ٹی وی اور اخبارات میں اپنا نام کرپشن کے معاملے پر دیکھتا تو تڑپ اٹھتا۔ اسے تکلیف اس بات کی تھی کہ نیب راولپنڈی کو اس نے جون 2018میں اپنے اثاثوں کی تفصیلات بھی دے رکھی تھیں مگر نیب کے تفتیشی مطمئن نہیں تھے۔ اس کی مسلسل تذلیل کی جارہی تھی جو اسے قبول نہ تھی۔ اس کے اعصاب جواب دے چکے تھے اسے رہ رہ کر خوف آتا تھا کہ اسے ہتھکڑیاں لگا کر میڈیا نمائندوں کے سامنے پریڈ کروائی جائے گی۔
اس نے اپنے آخری خط میں چیف جسٹس آف پاکستان سے یہی درخواست کی کہ اس نظام میں بہتری لائی جائے جہاں نا اہل لوگ شریف لوگوں کی توہین کرتے ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ایف آئی اے کے ایک افسر مظہر الحق کاکا خیل کا بھی اسی سے ملتا جلتا معاملہ ہے۔ نیب نے کسی دوسرے افسر کا تسلیم شدہ جرم اس افسر کے سر پر بھی ڈالا۔ بیچارہ مرتا کیا نہ کرتا ایسی ہی بے عزتی سے بچنے کے لیے جان چھڑائی مگر باتیں اور خبریں بیچارے کا آج بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
نیب نے کچھ عرصہ قبل سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف بھارت میں منی لانڈرنگ کرنے کا الزام بھی لگایا تھا جب ثابت ہوا کہ ایسا کوئی معاملہ سرے سے موجود ہی نہیں تو معذرت بھی نہ کی گئی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے ادوار میں مصلحتوں کے باعث نیب قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکے شاید تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان کو اسد منیر کی لاش نیب قوانین میں تبدیلی پر آمادہ کردے؟ مگر کوئی امید نہیں صرف ایک خیال ہی ہے۔
آج کے دور میں کسی پر کرپشن کا الزام لگانا گوشت کی زبان کو ہلانے سے زیادہ کچھ نہیں۔
تحقیق، ثبوت ، گواہ کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں۔ محض شک کی بنا پر آپ کسی کو کرپٹ کہہ دیں ، چور کہہ ڈالیں یا پھر لفافہ۔ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، تحقیق کی ضرورت ہی نہیں چاہے کسی کی جان جائے ؟ دراصل یہ خود ایک کرپٹ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ نیب کی طرف سے آئے روز لوگوں پر کرپشن کے کیسز کھولنے کے بیانات جاری ہوتے ہیں۔ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ ہم میڈیا والے بڑے چٹ پٹے انداز میں پیش کرتے ہیں۔
سوچتے بھی نہیں کہ یہ محض الزامات ہیں ابھی ثابت کچھ نہیں ہوا۔ کسی ملزم کو نیب گرفتار کرلے اور عدالت کے سامنے پیش کرے تو ہم کیمروں پر اس کی فوٹیج دکھانا بھی نہیں بھولتے۔ یہ الگ بات کہ جب وہی عدالت اسی ملزم کو باعزت بری کردے گی توکوئی شہ سرخی شائع کرے گا نہ ٹی وی بریکنگ نیوز نشر کرے گا۔
سچ یہ ہے کہ بنا عدالتی احکامات لوگوں کو کرپٹ قراردینا اور کرپٹ کے طور پر پیش کرنا ہم سب کا جرم ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مجھے نہیں لگتا کہ بریگیڈئیرریٹائرڈ اسد منیر نے کوئی خود کشی کی ہے سچ تو یہ ہے کہ اسد منیر کا قتل کیا گیا ہے اور اس قتل میں نیب کی پریس ریلیز اور ٹی وی چینلز کی سرخیاں اصل مجرم ہیں۔