چھوٹے سر اور بڑے کانوں والی مخلوق!

کئی لوگ کانوں کے بہت کچے ہوتے ہیں، جو کوئی اُن کے کان میں کچھ کہہ دیتا ہے اُس پر فوراً ایمان لے آتے ہیں۔ صرف ایمان ہی نہیں لاتے بلکہ اُس کے مطابق لائحہ عمل بھی مرتب کر لیتے ہیں حتیٰ کہ دریں اثنا کوئی دوسرا شخص اُن کے کان میں کچھ اور پھونکے جس پر وہ پٹڑی بدلتے ہیں اور ایک بار پھر لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں۔ چنانچہ اُن کی ساری زندگی اِسی چکر میں گزر جاتی ہے یعنی ارادے باندھنے اور ارادے توڑنے میں بسر ہوتی ہے۔

اسکول کے زمانے میں ہمارے ایک ماسٹر صاحب اِسی زریں اصول کے تحت زندگی بسر کرتے تھے یعنی زبان خلق کو فوراً نقارئہ خدا سمجھ بیٹھتے تھے۔ جب وہ کلاس میں داخل ہوتے تو شور مچاتے لڑکوں کو دیکھ کر بپھر جاتے اور مانیٹر سے پوچھتے کہ اِن شرپسندوں کا سرغنہ کون ہے؟ مانیٹر سرغنے پر انگلی رکھ دیتا جس پر ماسٹر صاحب ’’مجھے تم پر پہلے ہی شک تھا‘‘ کہتے ہوئے اُس کی طرف لپکتے اور مار مار کر اُس کا بھرکس نکال دیتے۔ وہ مردِ قلندر بڑے اطمینان سے مار کھاتا اور جب ماسٹر صاحب اُس کی پٹائی سے فارغ ہوتے تو نہایت ادب سے گزارش کرتا کہ شرارت اِس نے نہیں اس کے برابر میں بیٹھے ہوئے لڑکے نے کی تھی۔

اِس پر ماسٹر صاحب بید ہاتھ میں لئے اُس کے ’’ہمسائے‘‘ کی طرف بڑھتے اور ’’مجھے تم پر پہلے ہی شک تھا‘‘ کہتے ہوئے اُس پر ’’رکیک‘‘ حملہ کر دیتے۔ وہ پٹائی سے فارغ ہونے پر اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے اپنے ساتھ والے لڑکے پر انگلی رکھ دیتا اور یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہتا حتیٰ کہ آخر میں کوئی ستم ظریف مانیٹر کی طرف اشارہ کر کے کہتا کہ ماسٹر صاحب! شرارت تو دراصل اِس نے کی تھی۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب مانیٹر کی طرف بڑھتے اور آنِ واحد میں اُسے مانیٹر سے مرغا بنا دیتے کہ اُنہیں اِس پر بھی پہلے ہی سے شک تھا!

کچھ اِس قسم کا طرز عمل غالباً ملّا نصر الدین کا بھی تھا کہ زید نے ان سے بکر کے بارے میں کہا کہ وہ بہت غلط آدمی ہے۔ ملّا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو، تھوڑی دیر بعد ایک شخص ملّا کے پاس آیا اور کہا کہ بکر بہت اچھا آدمی ہے، ملّا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ محفل میں موجود ایک شخص نے یہ تماشا دیکھا تو ملّا کو مخاطب کر کے کہا، ملّا! تم عجیب آدمی ہو، تم نے دونوں کی بات کو ٹھیک قرار دے دیا؟ ملّا نے یہ سنا تو ایک بار پھر اثبات میں سر ہلایا اور کہا ’’تم بھی ٹھیک کہتے ہو‘‘۔

سو ثابت ہوا کہ انسان ذہن اور آنکھوں کو اگر گروی رکھ دے اور اُن کی جگہ کانوں سے دیکھے، سنے اور سوچے تو یہ رویہ دانشمندی کے ذیل میں آتا ہے کیونکہ جتنا وقت کسی واقعہ کی تفصیلات میں جانے اور اُس کے تمام پہلوئوں کا مطالعہ کرنے کے بعد نتائج اخذ کرنے میں صرف ہوتا ہے، اُتنی دیر میں آدھی کلاس کو مرغا بنایا جا سکتا ہے یا جتنا وقت کسی بھی چیز کو غلط یا صحیح قرار دینے کے ضمن میں بحث و تمحیص اور باہمی مکالمے پر صرف ہوتا ہے، اُس سے کہیں تھوڑے وقت میں ’’سب اچھا‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے اور یوں وقت ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے تاہم یہ نکتہ دانائی کا نکتہ ہے اور اسے صرف دانا لوگ ہی سمجھتے ہیں۔

اور بے شک ہم سب دانا لوگ ہیں۔ ہم نے یہ نکتہ اپنی قومی زندگی کے آغاز سے ہی پلے باندھ رکھا ہے اور آج تک اپنا طرز عمل اسی کے مطابق استوار کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک سے ایک بحران پیدا ہوا ہے لیکن ہم اُس رویے کے طفیل ہر بار چشمِ زدن میں اُس میں سے نکل گئے ہیں۔ چونکہ بحران ہماری طرح دانا نہیں تھا، اِس لئے وہ ہم میں سے نہیں نکلا، دھیرے دھیرے ہمارے پیچھے چلتا رہا۔ ’’موصوف‘‘ کو ہر دور میں یہ توقع رہی کہ ہم اِس کا سنجیدگی سے نوٹس لیں گے، اپنا دل و دماغ، آنکھیں اور کان اس کے لئے وا کریں گے مگر ہم بیوقوف نہیں ، دس جماعتیں پاس ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ انسانی جسم میں سب سے اہم چیز دل، دماغ نہیں کان ہیں اور ان سے بھی صرف ’’سرسری سماعت‘‘ کا کام لینا چاہئے چنانچہ ہم بحرانوں کو پیچھے پیچھے لگائے پھرتے ہیں۔ البتہ جب وہ بالکل سر پر پہنچ جاتے ہیں تو ہمارے کان کھڑے ہوتے ہیں اور یہی کانوں کا بہترین استعمال ہے سو بحمدللہ آہستہ آہستہ اب ہمارے کان بڑے ہو گئے ، سر چھوٹے رہ گئے ہیں، ہم دولے شاہ کے چوہے بن گئے ہیں۔

مجھے منیر نیازی یاد آگئے، منیر صرف ایک اعلیٰ درجے کے منفرد شاعر ہی نہیں، بہت تخلیقی جملے باز بھی تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’’میں جس دفتر میں جاتا ہوں، بتایا جاتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں، سمجھ نہیں آتی یہ دولے شاہ کے چوہے کیا میٹنگ کرتے ہوں گے‘‘۔ میرے دوستوں کو اِس جملے سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے کہ منیر نے جملہ کسنا ہوتا تھا اور وہ سوجھنے پر کسنے سے باز نہیں آتا تھا۔ ایک بار اسلام آباد میں مقیم ایک خاتون شاعرہ کے بلند بانگ دعوئوں کے حوالے سے کہنے لگے ’’یہ وہ اسکوٹر ہے جس میں ٹرک کا ہارن فٹ ہے!‘‘

میں غالباً موضوع سے ہٹ گیا ہوں، مگر نہیں ہٹا کیونکہ آخر میں جس ایکٹیوسٹ شاعرہ کے حوالے سے منیر کے جس جملے کا ذکر کیا ہے اس کا تعلق دولے شاہ کے چوہے کے خاندان ہی سے ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے