کنویئں کا مینڈک

کہتے ہیں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔اور ہر انسان دوسرے انسان سے سیکھتا ہے۔ اگر انسان یہ کہنا شروع کر لے کہ اسے سب معلوم ہے اور جس علم کا احاطہ اس نے کر رکھا ہے کسی اور کے پاس ایسا علم قطعی طور پر نہیں ہو سکتا، تو یہ اس کی بھول ہے اور وہ خودنمائی کے حصار میں جھکڑا ہوا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ” ہر انسان کے پاس دوسرے کے مقابلے میں علم ہے اور قدرے مختلف ہے۔”

مجھے گھومنے پھرنے کے ساتھ ساتھ نئی نئی جگہوں بارے معلومات حاصل کرنے کا تجسسس رہتا ہے۔ اب چونکہ میں یہ کالم ایک مخصوص بات کو ذہن میں لے کر لکھ رہا ہوں تو اس بارے تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ میرے اس کالم کا مقصد نیوزی لینڈ میں حالیہ دہشتگردی کا واقعہ اور کچھ مغربی ممالک کے “بیمار اور بوڑھے” لوگوں کی سوچ بارے ایک دلچسپ گفتگو پر مبنی ایک تجزیہ ہے۔

گزشتہ سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں شمالی یورپ کے سرد ممالک کی سیر کے لئے میں نے کوپن ہیگن(ڈنمارک) اور مالمو (سویڈن) کا انتخاب کیا۔ میں نے کوپن ہیگن سٹی سینٹر سے پیدل پندرہ منٹ کی دوری پر ایک ہوٹل میں بکنگ کروائی۔ میلان سے جاتے ہوئے میں نے وہاں کے موسم بارے مکمل معلومات لینے کے بعد اپنا بیگ ضروری سامان سے بھرا اور فلائیٹ کی روانگی سے دو گھنٹے پہلے برگامو انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچا۔ میرے پاس مناسب وقت ہونے کی وجہ سے میں نے وہاں لاؤنج میں بیٹھے ہوئے ایک جوڑے سے بات چیت شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ لڑکا کراچی سے تعلق رکھتا ہے جبکہ لڑکی جرمن ہے۔ اور خوش قسمتی سے وہ بھی کوپن ہیگن جا رہے تھے اور یہ ان کا ہنی مون ٹرپ تھا۔

شام کے وقت ہماری چیک-ان شروع ہوئی تو اسی دوران مغرب کی آزان کا نوٹیفکیشن مجھے اپنے موبائل فون پر آیا۔ میں نے اسی لمبی قطار میں سے ایک طرف ہٹ کر کھڑے کھڑے ہی تین فرض ادا کئے اور پھر لائن میں شامل ہوگیا۔ کوئی دس منٹ بعد کاؤنٹر تک رسائی ملی، میری فوٹو آئی ڈی اور ٹکٹ دیکھنے کے بعد مجھے بورڈنگ کیو کی طرف بھیجا گیا۔

المختصر، رات کے گیارہ بجے میں کوپن ہیگن پہنچ گیا تھا۔ ہوٹل پہنچتے پہنچتے ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔ ہوٹل پہنچتے ہی میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور پھر فجر کے وقت بیدار ہوا۔ اتنا تھک چکا تھا کہ آج کہیں بھی جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ لیکن میں پھر بھی اس کوشش میں تھا کہ قرآن کی تلاوت کے بعد نہ سویا جائے۔اور یوں کرتے کرتے میں نے کوئی آدھا پارہ ترجمے کے ساتھ تلاوت کر لیا۔

میں نے صبح ہوتے ہی کافی پینے کیفیٹیریا گیا۔ جہاں میری ملاقات مسز اسٹیفن سے ہوئی۔ ایک بوڑھی عورت، کتاب بینی کی شوقین، ہر دس منٹ بعد سگریٹ پینے کے لئے باہر جانا ان کا معمول، اور ساتھ ساتھ تاریخ پر گہری نظر۔۔۔ تعارف مکمل ہوا تو معلوم ہوا محترمہ ڈنمارک کی ہی رہنے والی ہیں، اولاد جوان ہو چکی ہے اور اب وہ اپنی اولاد کے ساتھ گھر کے اندر ہیں جب کہ ان کی والدہ گھر سے دور کسی ہوٹل میں اور کبھی نرسنگ ہومز میں مطالعہ فرما رہی ہیں۔

میرا تعارف شروع ہوا تو میں نے آخری لائن میں بتایا کہ میں ایک پروفیشنل صحافی بھی ہوں۔ مسز اسٹیفن نے سب سے پہلے جو وار کیا وہ یہ تھا کہ پاکستان تو دہشتگردوں کا گھر ہے، اسامہ کہاں سے ملا ؟ اس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا، کتنے بےگناہ لوگوں کی جان لی، اور اس کو پاکستان نے چھپا رکھا تھا۔۔۔ شکر کرو کہ امریکہ نے اسے ڈھونڈ کر مار ڈالا، اور لاش بھی سمندر برد کی ورنہ اس کی قبر کا بھی مزار بن جاتا اور یوں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہتا۔۔۔

مسز اسٹیفن اتنی تیزی اور غصے سے بول رہی تھی جیسے کہ میں اسامہ کا ساتھی ہوں، اس کے منہ سے تھوک اڑنے لگی، جس پر وہ بار بار معذرت کرتی۔ میں نے اپنی نشست بدل کر بات چیت کو بڑھایا کہ سارے مسلمان ایک جیسے نہیں ہیں۔۔۔ میں نے اسے P.M.H. Bell and Mark Gilbert کی کتاب The world since 1945 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ یورپ میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران مارے گئے تھے، وہ کس نے مارے تھے؟؟؟ آپ لوگوں نے تو لاکھوں انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔۔۔!

میں پانچ دن اس ہوٹل میں قیام کیا، لیکن مسز اسٹیفن کبھی بھی اس بات کو ماننے کو تیار نہ ہوئی کہ آج کے جدید دور کے گورے بھی کوئی انسانیت سوز گناہ کرتے ہوں گے۔ میں نے اس کو جرمن ونگز کے طیارے کے پائلٹ کی کہانی سنائی کہ اس نے طیارے کو کیسے تباہ کیا تھا، مگر جب تفتیش کی گئی تو جرمن حکومت نے اپنی ساکھ بچانے کی خاطر اس طیارے کے پائلٹ کو ڈپریشن کا مریض ظاہر کر دیا اور اس کے گھر سے ایسی ادویات بھی میڈیا کو دیکھائیں کہ لوگ مان جائیں کہ وہ ذہنی طور پر “بیمار” تھا۔۔۔۔

24 مارچ 2015 کو جرمن وینگز کی فلائیٹ 9525 کو سپین کے پہاڑی علاقے میں پائلٹ نے جان بوجھ کر گرایا تھا جس کے نتیجے میں عملے کے 6 افراد کے ساتھ 144 مسافر جانبحق ہوئے تھے۔

اب کی بار مسز اسٹیفن نے کہا کہ پائلٹ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس سے اس بات کا ثبوت ملے کہ اس نے جان بوجھ کر طیارہ گرایا تھا۔۔۔ وہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو مانتی تھی نہ ہی کسی اور مفروضے کو۔ اس کی نظر میں “گورے” کم از کم خود کشی کرتے ہیں نہ ہی بیگناہ کسی کی جان لیتے ہیں۔۔۔!!!

اب دیکھو کہ نیوزی لینڈ حکومت اس دہشتگرد کا میڈیکل ریکارڈ کیا پیش کرتی ہے۔۔۔ جس نے لائیو سٹریمنگ کے ساتھ کم از کم پچاس لوگوں کو موت کی نیند سلا کر اپنی وڈیو کو وائرل کیا۔۔۔!

خیال

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے