سبھی انسان خطا کار ہیں لیکن ہر ایک کسی نہ کسی میدان میں کارگر اور کار ساز اور گاہے شہسوار بھی ثابت ہو سکتا ہے‘ راہِ راست پہ اگر رہے۔ جب اور جتنی یہ بات سمجھ لی جائے‘ اتنا ہی پھل زیادہ۔
پاکستان سپر لیگ کی خیرہ کن کامیابی کا راز کیا ہے؟ کوئی افلاطونی فلسفہ اور نہ ہی کوئی نابغہ۔ بس ایک بھلا آدمی اور موزوں مردانِ کار۔ چھوٹے بڑے بہت سے عوامل‘ حیران کن تنّوع کی زندگی میں ہمیشہ دیگر بھی ہوتے ہیں۔ یہ طرزِ احساس پہ ہے کہ کون کس چیز کو کتنا اہم گردانتا ہے۔
پی ایس ایل کے ہنگام ایک سرخوشی کا ماحول قائم رہا۔ کیا یہ بہجت برقرار رہ سکتی ہے؟
کچھ اور کامیابیاں ممکن ہیں؟ کیوں نہیں؟ اعلیٰ ترین سطح کا جوہری پروگرام اور میزائل جو ملک بنا سکتا ہے۔ جیٹ جہاز بنا سکتا ہے‘ بہترین لڑاکا طیارے‘ جس سے مار گرائے گئے۔ وہ پائلٹ پیدا کر سکتا ہے‘ جن کا ثانی کوئی نہیں۔ اچھے منتظم اور سیاستدان اس سرزمین پہ کیوں جنم نہیں لے سکتے۔ تعلیم‘ صحت‘ زراعت اور صنعت کاری میں کیوں وہ معرکے برپا نہیں کر سکتا۔ قابل رشک معیشت کیوں تعمیر نہیں کر سکتا۔ 1947ء سے‘ تین عشرے تک ہمارا اقتصادی ثمر بھارت سے دوگنا رہا تو اب کیوں نہیں؟ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ یہ کہتی ہے: پاکستان کے لئے دو راستے ہیں۔ اول یہ کہ سہما ہوا‘ موجودہ طرزِ عمل جاری رکھے۔ دوسرا یہ کہ انسانی صلاحیت میں سرمایہ لگائے۔ مآل اس کا آٹھ فیصد کی بلند شرحِ نمو ہو گی۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ بارہ فیصد ہو سکتی ہے۔ چند ایک کا خیال ہے کہ سرمائے کا فرار رک جائے۔ کاروباری طبقات کو اندیشوں کی دلدل سے نکال لیا جائے۔ زراعت اور صنعت کاری کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کان کنی پہ ذہانت کھپائی جائے تو معجزہ بھی ممکن ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ کا فرمان ہے کہ ایک آسمانی قانون اگر جاری کر دیا جائے تو یہ چالیس دن کی موزوں‘ مہربان بارش کے برابر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر حال میں‘ ہمیشہ۔ اللہ کا سب سے بڑا قانون صراطِ مستقیم کی تمنا‘ تلاش اور کارفرمائی ہے۔
ایک خاردار جھاڑی کا حوالہ دیا گیا تھا کہ دانا چرواہے اس سے بچ کر نکلتے ہیں۔ چالیس ہزار سال کی تاریخ کے عظیم ترین حکمرانوں میں سے ایک جناب فاروق اعظمؓ غالباً یمن کے چرواہوں سے اس جھاڑی کے بارے میں پوچھا کرتے۔ کیسی ہوتی ہے‘ کس طرح اس کے کانٹوں سے دامن بچاتے ہیں؟
زراعت ہی کو لیجئے۔ قومی آمدن کا 22 فیصد نقد پیش کرتی ہے۔ سبھی کا پیٹ بھرتی ہے۔ سبھی کو شادمان رکھتی ہے۔ ؎
جب جیب میں سکے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے‘ اس وقت یہ شبنم موتی ہے
وہ تعلیم کاشتکار کو دے دی جائے‘ جو پاس پڑوس میں ہے۔ چین میں ہے تو پیداوار دوگنا ہو سکتی ہے۔ عمران خان نے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب تک آغاز نہیں‘ ابتدا ہی نہیں۔
جہانگیر ترین سمجھتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں‘ اپنے تجربات عام کریں۔
زرعی تحقیقی ادارے پسماندہ ہیں‘ بڑا حصہ تنخواہوں پہ اٹھ جاتا ہے۔ پی آئی اے کی طرح‘ سٹیل مل اور ریلوے کی مانند۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شہر سے متصل زرعی تحقیقاتی کونسل کی اراضی پہ امرا کے محلات تعمیر کرنے کا خواب دیکھا گیا۔ اس ادارے کے بل پر ڈاکٹر ظفر الطاف نے1993ء سے 1996ء تک نمو کی سطح 7 فیصد تک پہنچا دی تھی۔ اب ایک فیصد بھی نہیں۔ ان اداروں کے بعض سائنسدانوں نے انہی یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی‘ جن سے ہمارے میزائل ڈھالنے والے سرخرو نے۔ قصور‘ پتوکی اور ایک دور کے دیار ماموں کانجن میں کاشت کاری سے پیداوار کئی گنا کر لی گئی‘ دو تین برس میں۔ حکومت اگر پانچ سال میں بھی کر دکھائے تو اس کا مطلب ہوگا‘ 44 فیصد۔ یعنی فقط زراعت سے معاشی بحران کا خاتمہ!
رکاوٹیں اور مشکلات؟ پاکستان سپر لیگ میں بھی تھیں۔ بھارت کا کرکٹ بورڈ‘ حتیٰ کہ میڈیا بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا کہ پی ایس ایل پھیکی رہے۔ سمندر پار کھلاڑیوں سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دعوت قبول کی تو بھارت کے دروازے بند ہوں گے۔ اس کے باوجود شین واٹسن‘ ڈی ویلیئرز اور ڈیرن سیمی دستیاب ہوئے۔احسان مانی سندھ حکومت کے شکرگزار ہیں کہ ہر ممکن مدد مہیا کی۔ کلیم امام ایسے افسروں کی موجودگی میں اس پر کیا تعجب۔ نجم سیٹھی بھی داد کے مستحق ہیں۔ آغاز اسی نے کیا تھا۔ امید کی جگمگاہٹ برقرار رکھنے میں حصہ ڈالا۔ فکر و نظرکا اختلاف اپنی جگہ مگر جب کوئی مثبت اور مددگار ہو تو تحسین کی جانی چاہئے۔
سپہ سالار جنرل باجوہ میچ دیکھنے گئے‘ بہت اچھا کیا۔ اس سے بھی اچھا یہ ہوتا کہ بنفس نفیس عمران خان جاتے۔ وہ کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے عظیم کپتانوں میں سے ایک ہیں۔ پاکستانی کرکٹ نے جتنا فخر ان پر کیا ہے‘ اساطیری وسیم اکرم سمیت کسی اور پر اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ ان کی موجودگی حوصلوں کو بڑھا دیتی‘ جتنی دو ہفتے قبل پاکستانی ہوا بازوں کی ساحری۔ ؎
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
کوئی بڑی سے بڑی سفارتی مہم‘ دنیا میں پاکستان کا تاثر ایسا اجلا اور اجاگر نہ کرتی‘ جتنا کہ کرکٹ کے ان مقابلوں نے۔ دنیا نے جان لیا کہ یہ امن پسند اور باصلاحیت لوگ ہیں۔ شاد کام اور تعمیری اندازِ فکر کے حامل۔ سیدھے راستے پر چلنے کا انعام ہوتا ہے‘ خالص‘ کھرا اور بے داغ۔
ہر چیز میں ایک سیدھا راستہ ہوا کرتا ہے‘ صراطِ مستقیم۔ ہر خطاب میں وزیر اعظم پڑھتے ہیں ”اھدناالصراط المستقیم‘‘ غور کیا ہو گا‘ مزید غور انہیں کرنا چاہئے۔ سیدھے راستے پہ چلتے ہوئے ایسے ہی نابغوں کو کیا قوم کا مستقبل سونپا جاتا ہے۔ ؎
یوں کودا تیرے ”گھر‘‘ میں کوئی دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
کرکٹ کی کامیابی‘ خاکی وردی والوں سمیت‘ سبھی کی کامیابی ہے۔ امن کے لئے جو زندہ و بیدار رہے۔
بیمار معیشت اگر جی اٹھے تو پوری قوم کے لئے مژدۂ جاں فزاہو گا۔ گیہوں اور دھان کے کھیتوں پہ ابر برستا ہے‘ تو وہ کالے اور گورے‘ مفلس اور غنیم‘ سردار اور پیروکار میں تمیز نہیں کرتا۔ نعمتیں ارزاں ہوتی ہیں تو امید کا سبزہ چہار سمت لہلہاتا ہے۔ گائوں گائوں‘ گھر گھر مہکتا ہے۔ جذباتی توازن قائم رہے تو ہوش مندی تدبّر میں ڈھلتی اور تدبرّ حکمت میں ڈھلتا ہے۔ پھر برکت نصیب ہوتی اور ہر سمت اجالا کرنے لگتی ہے۔ ع
اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ
سرفرازی اور بالیدگی کے لئے ایک کم از کم اتفاقِ رائے درکار ہوتا ہے‘ عدل مگر عالی ظرفی۔ انتقام کا ایک شائبہ بھی ماحول کو آلودہ کرتا ہے۔ جیسے ایک مچھلی پورے جل کو گندا کر دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ اچھے بھی ان میں ہیں۔ انہی روشن دماغوں‘ انہی اہلِ یقین نے قادیانی ماہر کی شمولیت کو مسترد کیا‘ باقیوں کو پیروی کرنا پڑی۔ وہ بھی ہیں‘ جو یہ کہتے ہیںکہ اپوزیشن سب کی سب سیاہ کار ہے‘ ان کے سوا جو بنی گالا پہ ایمان لے آئے۔ وہ کہتے ہیں‘ اخبار نویس سب کے سب بلیک میلر ہیں‘ ان کے سوا رہنمائی کے لئے جو پہاڑی پہ بنے گھر کو دیکھتے ہیں۔ اہلِ نظر پہاڑی کے چراغ کو دیکھتے ہیں‘ کسی گھر کو نہیں۔
امیر خسرو‘ اس ہفت ہنر آدمی نے ایک دن خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی دستار کو قدرے کج دیکھا۔ شاعر نے تقلید کی۔ خسرو سے کسی نے پوچھا تو بھید بتا دیا اور یہ کہا ع
من قبلہ راست کردم برطرف کج کلاہے
سیاسی لیڈر روحانی پیشوا نہیں ہوتے۔ اپنے ہنر کے باوجود‘ ہم آپ ایسے عام لوگ۔ ان کی مدد کرنی چاہئے۔ ٹوکنا بھی چاہئے‘ جس طرح کہ بزدار صاحب کو ٹوکا۔
سبھی انسان خطاکار ہیں لیکن ہر ایک کسی نہ کسی میدان میں کارگر اور کارساز اور گاہے شہسوار بھی ثابت ہو سکتا ہے‘ راہِ راست پہ اگر رہے۔ جب اور جتنی یہ بات سمجھ لی جائے‘ اتنا ہی پھل زیادہ۔