ہم کس سے مخاطب ہیں؟

مئی 1940میں فرانس پر جرمن قبضے کے بعد برطانیہ کے ساڑھے تین لاکھ فوجی گھیرے میں آگئے۔ شکست خوردہ اتحادی لشکر ڈنکرک کے ساحلوں پر بے یارومدد گار پڑا تھا۔ یقینی بات تھی کہ چند روز میں تعاقب کرنے والی جرمن فوج اُن برطانوی فوجیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دے گی جن کے پاس اسلحہ باقی تھا اور نہ صف بندی کی کوئی صورت۔ ایک طرف سمندر تھا اور دوسری طرف جرمن ٹینکوں کا ٹڈی دل۔

اس موقع پر لندن میں فیصلہ کیا گیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ تعداد میں برطانوی سپاہیوں کو واپس لایا جائے۔ برطانیہ کے بحری وسائل اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو منتقل کرنے کے لئے ناکافی تھے۔ چنانچہ عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی ذاتی کشتیوں میں ہم وطنوں کو بچانے کے لئے نکل کھڑے ہوں۔ آپریشن ڈائنمو 26مئی کو شروع ہوا۔ رود باد انگلستان میں جرمن آبدوزیں شارک مچھلیوں کی طرح لہو کی بو سونگھتی پھر رہی تھیں۔ موسم ناموافق تھا۔ کامیابی کی امید موہوم تھی اور ناکامی کی صورت میں برطانیہ کی تباہی یقینی تھی۔ ایک ہفتے کی جان گسل جدوجہد کے بعد تین لاکھ چالیس ہزار فوجی معجزانہ طور پر واپس وطن پہنچ چکے تھے۔ قومی یک جہتی، بے مثال بہادری اور فوجی مہارت کے اس بے مثال مظاہرے سے برطانیہ کا مورال دفعتاً بحال ہو گیا۔ ڈنکرک سے فوج نکالنے کے بعد ونسٹن چرچل پارلیمنٹ سے خطاب کرنے آئے تو خیال تھا کہ وہ اس کامیابی کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں گے لیکن چرچل کی تقریر کا حاصل ایک ایسا جملہ تھا جسے سیاسی قیادت کی حقیقت پسندی کا نمونہ کہنا چاہئے۔

Wars are not won by withdrawals. (جنگیں شکست خوردہ فوجیوں کو بچا لانے سے نہیں جیتی جاتیں) چرچل جانتا تھا کہ ناکامی اور کامیابی میں شعوری تناسب قائم رکھنا ہی سیاسی بصیرت ہے۔

ونسٹن چرچل کا یہ جملہ اس لئے یاد آیا کہ ان دنوں ہم ایک ناقابل فہم جذباتی ابال کی سی کیفیت میں ہیں۔ گزشتہ ماہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان بھارت کشیدگی نے جو خطرناک صورت اختیار کی تھی، اُس میں پاکستان کی حکمت عملی بھارت سے زیادہ کامیاب رہی لیکن ہم بھول رہے ہیں کہ 14فروری کو ہمیں جس افتاد نے آلیا تھا اُس کے بعد ابھی تک اسلام آباد سے کراچی جانے والی پروازیں ہنگو، پنجگور اور ژوب کا راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ ایک مہینے پر محیط اس کشیدگی کی معاشی قیمت کا تخمینہ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا۔ کرائسٹ چرچ میں ایک نسل پرست جنونی کی دہشت گردی کے نتیجے میں 50عبادت گزار شہید ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ جیسے پرامن ملک میں اس المناک سانحے پر عالمی ردعمل قابل فہم بھی ہے اور قابل تحسین بھی۔

تاہم پاکستان میں اسے ایک اور رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اخبارات کی چیختی چنگھاڑتی سرخیاں پڑھ کر بالکل اندازہ نہیں ہو رہا کہ پار سال پاراچنار میں مسلکی دہشت گردی کے سانحے میں 20سے زائد افراد کی شہادت ہمارے اخبارات میں محض تین کالمی خبر کا درجہ پا سکی تھی۔ غالباً کرائسٹ چرچ میں نسلی دہشت گردی کے واقعے کو اس رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے کہ اس سے مذہبی دہشت گردی کا جواز تراشا جا سکے۔ ہماری ڈھول ڈھمکا کیفیت کا تیسرا زاویہ پی ایس ایل کے آٹھ میچوں کا کراچی میں انعقاد ہے۔ ترانوں اور نعروں سے لہو گرمانے والے حلقے یہ نہیں سوچتے کہ لاہور میں ہونے والے میچ بوجوہ کراچی منتقل کرنا پڑے۔ نیز یہ کہ اس ٹورنامنٹ کے 26میچ اس برس بھی خلیجی ملک میں کھیلے گئے۔ مثلث کے ان تینوں نکات کو ملانے سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جولائی 2018میںقائم ہونے والی حکومت نے آٹھ ماہ میں معیشت، گورننس اور سیاسی عمل کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اُس کا ممکنہ عوامی ردعمل کچھ دیر کے لئے ٹل گیا ہے۔ جیسے جنگیں ہارے ہوئے فوجیوں کو کامیابی سے نکال لانے سے نہیں جیتی جاتیں، ٹھیک اسی طرح قومیں بھی ملی نغموں سے تعمیر نہیں ہوتیں۔

ورلڈ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں غذائی کمی کے باعث بچوں کی 38فیصد تعداد Stuntingجیسے مرض کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ شرح دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔ اگر کوئی بچہ مسلسل غذائی قلت کا شکار رہے تو اس کا جسم سکڑنے لگتا ہے، پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں، قد چھوٹا رہ جاتا ہے اور ذہنی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس غذائی قلت کا سبب غربت بتائی جا رہی ہے۔ سبحان اللہ! ہم نے 1980کی دہائی میں صحت اور تعلیم میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ کر جو پیرا ڈائم تیار کیا تھا، قوم اس کی فصل کاٹ رہی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں تنقیدی شعور، عصری فکر اور جستجو کی بجائے تلقین کا رجحان اپنایا گیا۔ چنانچہ عمران خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کی ذہنی صلاحیت عالمی سطح پر مقابلے کی سکت نہیں رکھتی۔ خیال تھا کہ ہمارے بچے تعلیم میں پھسڈی رہ جائیں تو جسمانی مشقت کر کے روٹی کما لیں گے۔

اب معلوم ہوا کہ ذہن کی خشک سالی سے بدن کی ہریالی بھی سوکھے کا شکار ہو جاتی ہے۔ ورلڈ بینک تو یہی تجویز دے سکتا ہے کہ غربت دور کر نے کے لئے انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کی جائے۔ ورلڈ کے نابغوں کو کیا معلوم کہ ہماری غربت کا سبب محض پیسے نہ ہونا نہیں۔ ہم خیال کی غربت کا شکار ہیں، ہمارے شعور کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ ہمارے صحافیوں کی بڑی تعداد خبر کی درستی اور رائے کی اصابت پر کیا توجہ دے، انہیں تو بجلی کا بل ستا رہا ہے اور یہ خیال سوہان روح ہے کہ مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی۔ ہمارا وائس چانسلر تعلیم کے امکانات پر کیا غور کرے، اسے تو ہر مہینے یہ خیال کاٹتا ہے کہ یونیورسٹی ملازمین کی اگلی تنخواہ کا بندوبست کیسے ہو گا۔ آئے روز خبر آتی ہے کہ دنیا نے طبی تحقیق میں نیا میدان سر کیا ہے۔ ادھر ہمارے اسپتالوں کے ضمن میں درویش کا ایک مشاہدہ ملاحظہ کریں۔ لاہور کے ایک اسپتال کے دروازے پر تیمار دار اپنے مریض کو ایمبولنس میں سوار کر رہے تھے۔ رک کر پوچھا، کیا آپ کا مریض صحت یاب ہو گیا ہے۔

جواب ملا، ’جی نہیں، ہمارے پیسے ختم ہو گئے ہیں‘۔ ریاست کے پاس بھی لامحدود پیسے نہیں ہوتے۔ اسد عمر نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے ہی والا ہے۔ ہمیں بیل آؤٹ مل جائے گا۔ اس پر آئی ایم ایف کو گالی بنا کر پیش کرنے والے دانشمندوں کو حکومت پر داد کے ڈونگرے برسانے کا موقع مل جائے گا۔ ہمیں مگر سوچنا چاہئے کہ جنگیں کامیاب پسپائی سے نہیں جیتی جاتیں اور غربت بیل آؤٹ پیکیج سے دور نہیں ہوتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے