مغربی دنیا دہشت گردی کو زیادہ تر عسکریت پسند مسلمانوں کا کام ہی سمجھتی رہی ہے۔ کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملوں نے ثابت کیا کہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر نفرت بھی بالکل اتنی ہی ہلاکت خیز ہو سکتی ہے۔
کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مسلمان‘ دو مساجد میں عبادت میں مصروف عمل تھے۔ عمومی طورپرعبادت گاہوں میں انسان خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں‘ وہ اپنے رب سے لو لگائے‘ اپنے تصورات میں گم ہوتے ہیں‘ وہ کسی بھی وقت جرم کا نشانہ بننے والا آسان ہدف ہو سکتے ہیں۔گزشتہ مساجد یا چرچ میں بم دھماکوں یا دہشت گردی کی وارداتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ خدا کے سامنے سب انسان برابر ہیں‘ ضرورت اور خوف کی صورت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے‘ کیونکہ ان دونوں اسباب کے باعث ‘انسان ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو آپس میں ایک جیسا ہی سمجھتے ہیں‘ان حملوں کے مرتکب دہشت گرد نے اپنی کارروائیوں کی بڑی تفصیل سے منصوبہ بندی کی ‘ ہر پہلو پر قبل ازکارروائی غور کیا۔ اس بارے میں بھی سوچا ہوگاکہ وہ اپنی ان کارروائیوں کی انٹرنیٹ پر تشہیر کیسے کرے گا؟
مگر ایک اہم بات وہ جذبات میں آکر بھول گیا کہ دہشت گردی انسانوں میں تقسیم پیدا کر سکتی ہے‘ تو وہ انہیں ایک دوسرے کے قریب بھی لا تی ہے۔کوئی انسان لادین ہی سہی ‘خواہ وہ مسیحی‘ یہودی یا پھر مسلمان‘ جہاں خطرہ ہو ‘وہاں مذہب اہمیت نہیں رکھتا۔ دہشت گردی مختلف مذاہب‘ ثقافتی شناختوں اور قومیتوں میں کوئی تفریق نہیں کرتی۔ یہ پہلو بھی کوئی کردار ادا نہیں کرتا کہ کون کہاں پیدا ہوا؟کس ملک کا شہری ہے‘ کچھ بھی معنی نہیں رکھتا۔
کرائسٹ چرچ میں ان حملوں کی بین الاقوامی سطح پر اتنی ہی شدت اور اتفاق رائے سے مذمت کی گئی‘ جتنی دوسرے عسکریت پسندوں کی طرف سے ‘ پیرس‘ برسلز‘ لندن‘ میڈرڈ یا پھر برلن میں کیے گئے مسلح حملوں کی گئی ۔ جہاں تک بات دہشت گردی کی ہے ‘تو معصوم اور بے گناہ انسانوں کی‘ جنہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے‘ تو پھر اس عمل کی مذمت میں کوئی دُہرا معیارنہیں ہونا چاہیے۔
اسلام فوبیا یا اسلام سے خوف سوچی سمجھی سازش کے تحت پھیلایا جاتا ہے۔مغربی دنیا اور ان کے میڈیا کا نقطہ نظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ عین اسی طرح جیسے مسلمانوں میں بھی تشددپسند چند عناصرپائے جاتے ہیں‘اس طرح دوسرے مذاہب میں بھی خطرناک گروہ موجودہیں۔ دونوں پر نظر رکھنا اہم ہے‘مگر افسوس ہمیشہ تنقید کا نشانہ صرف مسلم قوم کو ہی بنایا جاتا ہے۔
ایک امریکی نیوز چینل کے اینکر ”اینڈرسن کوپر‘‘نے اپنے شو میںکہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتے حملہ آور کے منشور سے اس کے دہشت گردانہ عزائم اور اقدامات واضح طور پر عیاں تھے‘ جس کے مطابق؛ سفید فام نسل کو مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہے۔اس کے برعکس ”سین برنینڈنو‘‘ حملے کے فوری بعد ‘ٹرمپ نے اسے انتہاپسند اسلامک دہشت گردی قرار دیا تھا‘ مسلمانوں کے امریکا داخلے پر پابندی کا اعلان بھی کیاگیاتھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیوزی لینڈ حملے کو دہشت گردانہ حملہ نہ کہنے پر ٹی وی میزبان نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردی کو دہشت گردی کہے بغیر مذمت منافقت ہے‘ اس حملے کو دہشت گردی نہ قرار دینا‘ جاں بحق مسلمانوں کی توہین ہے۔امریکی صحافی نے سفید فام قومیت پرستی کے وجود کو تسلیم کرنے اور اس سے نمٹنے کے لئے اقدامات کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔مغربی اور امریکی میڈیا میں ایسا تجزیہ یقینا مغرب کا اصل چہرہ دکھا رہا تھا۔
نیوزی لینڈ کایہ شہرکرکٹ کے لئے مشہور ہے۔ نیوزی لینڈ جنوبی بحرالکاہل کے دوجزائر پر مشتمل ہے‘ جسے جزیرہ شمال اور جزیرہ جنوب کہا جاتا ہے۔چار لاکھ نفوس پر مشتمل نیوزی لینڈ کا تیسرا بڑا شہر کرائسٹ چرچ جزیرہ جنوب پر واقع ہے۔14 مارچ کو شہر کی مرکزی النور جامع مسجد اور Linwoodمسجد کو دہشت گردوں نے اس وقت نشانہ بنایا ‘جب وہاں جمعہ کی نماز ہورہی تھی۔ سیاہ لباس میں ملبوس مشین گن سے مسلح ایک شخص مسجد النور کے عقبی دروازے سے داخل ہوا اور فائرنگ شروع کردی۔ حملہ آور نے سر پر ہیلمٹ پہن رکھا تھا‘ جس پر ویڈیو کیمرہ نصب تھا ‘ خیال ہے کہ وہ اس وحشت کو فلمبند بھی کررہاتھا اورانٹرنیٹ پر براہ راست دکھانے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا۔
آسٹریلیا کی وزیر اعظم ‘نے نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کرنے والے شخص ”برینٹن ٹیرینٹ‘‘ کو دائیں بازو کا ایک دہشت گرد قرار دیا۔نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر نے اس بات کی تصدیق کی کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلوی پولیس یا سکیورٹی اداروں کے پاس اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات یا اطلاعات نہیں تھیں۔ حملہ آور نے اپنے آپ کو 28 سالہ آسٹریلین برینٹن ٹیرینٹ بتایا۔ حملہ آور کے ہاتھ میں ایک کاغذپراس حملے کے محرکات درج تھے‘حملے کے وقت بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی مسجدالنور میں موجودتھے۔ اس ٹیم کو تیسرا ٹیسٹ میچ ہفتے کومیزبان ٹیم سے کھیلنا تھا۔ خوش قسمتی سے تمام بنگالی کھلاڑی محفوظ رہے۔
پولیس کمشنر مائک بش نے بتایا کہ 2 مساجد پر حملوں میں کئی افراد ہلاک ہوئے‘حفظ ماتقدم کے طور پر مساجد و گرجا گھر سمیت تمام عبادت گاہوں پر تالے لگاکر پولیس تعینات کردی گئی اور پولیس نے شہریو ں سے گھروں کے اندر رہنے کی درخواست کی‘ وقت گزرنے کے ساتھ حالات معمول پر آتے گئے ‘تمام شہر کی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں پر سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم محترمہ جیسنڈاآرڈرن (Jacinda Ardern) جو غیر ملکی دورے پر تھیں‘ خبر سنتے ہی فوری طورپر وطن واپس پہنچیں۔ وزیراعظم جیسندا نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس قسم کی نفرت کی نیوزی لینڈ میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نیوزی کا تاریک ترین دن ہے۔متاثرین میں بہت سے لوگ شاید غیر ملکی اور پناہ گزین ہیں‘ لیکن یہ لوگ ہمارے ہیں‘ جبکہ وحشی حملہ آورکی نیوزلینڈ میں کوئی جگہ نہیں۔
انسانوں کواس وقت امن کی ضرورت اشد ضرورت ہے؛ اگر اپنے رہنے سہنے کی جگہ میں خوف و خطر اور دشمنوں کے حملوں سے امن و اطمینان نہ ہو تو نہ دنیاوی ‘ مادی اعتبار سے ان کی زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے اور نہ دینی اور روحانی اعتبار سے۔ دنیا کے سارے کاموں اور راحتوں کا مدار تو امن و اطمینان پر ہونا ظاہر بھی ہے۔