از پرانا پاکستان
20مارچ2019ء
مائی ڈیر مسٹر یوتھ!
ڈھیروں پیار اور دعائیں، امید ہے تم اپنی جوانی سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے ہو گے، آج کل تو تمہارے اِس لئے اور بھی مزے ہیں کہ بوڑھی نسل نے اقتدار ہی نوجوان نسل کو منتقل کر دیا ہے۔ علامہ اقبال نے وصیت کی تھی ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘ اور ہم بوڑھوں نے 2018کے انتخابات میں اس وصیت پر عمل کر کے تمہاری بات مان لی۔ ہم میں سے کئی، بہت عرصے سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے تھے اور کچھ پکے ن لیگی ووٹرز تھے مگر تمہاری ضد کے سامنے ہم نے ہار مان لی، تم بار بار کہتے تھے کہ آپ سب کو آزما چکے ہیں، ایک بار اِسے بھی آزما لو۔ ہم ٹھنڈے دل سے دلائل دیتے رہے، تمہیں تمہارے لیڈر کے ’’نیک و بد‘‘ بتاتے رہے مگر تمہاری جذباتیت اور منتوں کے آگے بڑھاپا بےبس ہو گیا۔ تم سے پیار بھی تھا اِس لئے تمہارے حق میں فیصلہ کر دیا۔
پیاری یوتھ!
بوڑھے باپ، شفیق چاچے اور مامے، معمر دادے اور نانے اور بڑھتی ہوئی عمر کی مائیں، بہنیں اور بھابھیاں سب نے اپنا وزن تمہارے پلڑے میں ڈالا، تماری آنکھوں میں مستقبل کے سہانے خواب دیکھ کر ہم نے اپنے تجربے اور عقل کو بھی پس پشت ڈال دیا، ہمیں بہت کچھ صاف نظر آرہا تھا مگر تمہاری محبت نے ہماری آنکھیں دھندلا دیں۔
صرف اتنا ہی نہیں ہم نے تبدیلی آنے کے بعد خود بھی تبدیل ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ اولڈ جنریشن کے لئے تبدیلی بڑی مشکل ہوتی ہے مگر ہم نے حتی المقدور کوشش کی کہ ہم ’’نئے پاکستان‘‘ کے ساتھ چل سکیں، اور تو اور ہمیں زندگی بھر مہنگائی سے نفرت رہی لیکن نئے پاکستان کی مہنگائی سے بھی محبت کرنے کی کوشش کی، کئی دفعہ محفلوں میں مہنگائی کے فوائد بیان کئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مہنگائی تو بڑی اچھی اور کارآمد چیز ہے، جس سے ملک اور اُس کے شہریوں کی بھلائی مقصود ہوتی ہے۔کئی نسلوں سے ہم شائستگی کا پرچار سنتے آئے تھے مگر تبدیلی کی خاطر ہم نے تمہارےفیاض چوہانوں اور مراد سعیدوں کو ہیرو بنا لیا، پہلے مظلوم اچھے لگتے تھے، اب ظالم اچھے لگنے لگے ہیں، سالہا سال سے جمہوریت کے دلدادہ تھے اب ایوب خان جیسے آمروں کی خوبیاں تلاش کرنے لگے ہیں، پہلے بھٹو کی خوبیوں کے معترف تھے اب ڈھونڈ ڈھونڈ کر جنرل ضیاء الحق کی خوبیاں تلاش کرنے لگے ہیں۔ ہم کیا کریں ہمارا دل بدل گیا ہے، ذہن بدل گیا ہے، ہم کیوں نہ بدلیں جب ہمارے اردگرد سب کچھ بدل گیا ہے۔ اچھائی اور برائی کے معیار بدل گئے، کل جو اچھائی تھی آج برائی ہو گئی اور کل جو برائی تھی آج اچھائی ہو چکی۔
عزیز از جان یوتھ!
پہلے ہمیں آزاد اور غیر جانبدار صحافی پسند تھے، جراتمند اور بےباک صحافت کو ہر کوئی سراہتا تھا مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ مجھے اب خوشامد اچھی لگنے لگی ہے۔ اب مجھے وہ بالشتیے اچھے لگتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ سیاست کا سبق کیسے پڑھا جائے اور صحافت کیسے کی جائے؟ آج کل ماضی کے صحافتی دیو چھپتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی عزت کیسے بچائیں، بونے ماشاء اللہ اس قدر زور آور ہو گئے ہیں کہ وہ ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر گالیاں دیتے ہیں، ماضی کے عبقری اِس قدر ڈر گئے ہیں کہ دلائل کا انبار ہونے کے باوجود جواب نہیں دے پاتے۔ یہ دور ہی ڈھٹائی اور زور آوری کا ہے، ہم بھی اس میں ڈھل گئے ہیں۔ ہمیں اس تبدیلی کو ہضم کرنے میں مشکل تو پیش آرہی ہے مگر اے یوتھ ہم تمہاری محبت اور شفقت میں مسکرا مسکرا کر اس تبدیلی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
اے نوجواناںِ قوم!
ہم تمہارے ’’بڑے‘‘ سر سید احمد خان کی سائنسی سوچ اور جناح صاحب کی عملی جدوجہد کے پیروکار تھے مگر تمہاری محبت نے ہماری عقل ہی مائوف کر دی ہے۔ اب تو دشمن کے جہاز روحانیت سے گر رہے ہیں، جادو ٹونے اور چلوں کو عروج حاصل ہے، ہم نے بھی چلے کاٹناشروع کر دیا ہے، بابے اور پیر ڈھونڈلئے ہیں، پہلے ہم عمل اور محنت کو کامیابی کی کنجی سمجھتے تھے مگر اب دھاگے اور دم درود درد کا درماں بن گئے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو ہم اپنی اِس خفیہ طاقت سے یہاں بیٹھے بیٹھے امریکہ کو بھی تباہ و برباد کردیں گے۔ جہاں سب کچھ بدل گیا ہے وہاں پرانی عقل و دانش کی ضرورت ہی کیا ہے، جب ہمارا جادو چل رہا ہے تو پھر ہمیں فکر ہی کیا ہے؟ لگے رہو منے بھائی ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
مائی ڈیئر!
تم واقعی ہم بوڑھی نسل سے زیادہ عقل مند ہو کیونکہ بیٹے باپ سے ہمیشہ زیادہ چالاک ہوتے ہیں، بیٹیاں اپنی ماں کی نسبت زیادہ ہوشیار ہوتی ہیں، اِسی لئے ہم نے تمہاری بات مانی، اقتدار، اپنا حال اور مستقبل بھی تمہارے حوالے کر دیا اب ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں، مگر کبھی کبھی دل میں برے خیالات آتے ہیں ، اندیشےسر اٹھانے لگتے ہیں۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو، تم تو خوش فہمی کی انتہا پر ہو، ہم تمہیں اِس انتہا سے نیچے نہیں اتارنا چاہتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کبھی کبھی محبت بھی سچ نہیں بولنے دیتی، ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہمارے پھولوں کا دل نہ ٹوٹ جائے، کہیں یہ غنچے بن کھلے نہ مرجھا جائیں۔ تم ہمیں بہت پیارے ہو، میرے دلارے ہو، اِس لئے منہ پر سچ نہیں کہہ پاتا مگر کبھی کبھی میں رات سوتے ہوئے اٹھ جاتا ہوں، مجھے ڈرائونے خواب آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ بوڑھی نسل نے نوجوان نسل کے دام میں آکر بڑی غلطی کرلی ہے، اولاد سے حد سے بڑھی ہوئی محبت نے ہمیں مروا دیا ہے۔ ہم نے عقل کو دفن کر کے بچوں کے جذبات کو اہمیت دی، ہم نے آزمائے ہوئے حکمرانوں کو چھوڑ کر ناتجربہ کاروں کو سب کچھ دے دیا۔ ہم ریٹائرڈ بیوروکریٹ، ریٹائرڈ جرنیل، اپر مڈل کلاس اور کارپوریٹ کلاس کے باسز بڑے عقل مند ہوتے ہیں، ہم تو ہر کسی کو چیر پھاڑ کر دیکھ لیتے ہیں مگر لگتا ہے کہ تمہاری محبت میں ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی زندہ سانپ نگل گئے، اب یہ کڑوا کڑوا محسوس ہو رہا ہے مگر ہمت نہیں ہو رہی کہ تمہیں سچ بتائیں۔
پیاری اور دلاری یوتھ!
گو عمر اور طبیعت اجازت نہیں دیتی کہ حرف شکایت زبان پر لائیں مگر کیا کریں پنشن، تنخواہ اور جمع پونجی بیٹھے بٹھائے کم ہو رہی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے پہلے ہی بینک بیلنس کم ہو چکا ہے، بزنس چل نہیں رہا، ہر کسی نے پیسہ روپیہ گوداموں میں بند کر دیا ہے، دولت ویسے بھی بہت بزدل ہوتی ہے، ذرا سا خطرہ ہو تو یہ اندھیرے کمروں میں چھپ جاتی ہے۔ آٹا دال، صابن، تیل اور گھی سب کچھ مہنگا ہو چکا ہے۔ سبزی، گوشت اور چکن کو آگ لگ چکی ہے، ایسے میں ہم ہر روز یوتھ کی طرف بےبسی سے دیکھتے ہیں کہ خوشحالی والی تبدیلی کب آئے گی؟ ڈالر کب برسیں گے؟ مشکل وقت کب ختم ہوں گے؟ بیرون ملک آباد پاکستانی کب یہاں آکر سرمایہ کاری کریں گے؟ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں بہتر طرزِ حکمرانی کب اختیار کریں گی؟ ہر ایک کو انصاف کب ملنا شروع ہو گا؟ 500ارب سالانہ کھا جانے والی سرکاری کارپوریشنز کب نجی شعبے میں جائیں گی؟ ہم قرضہ لینا کب بند کریں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کاروباری ماحول کب ٹھیک ہو گا؟ دعوے حقیقت میں کب بدلیں گے؟ کب ہو گا یہ سب کچھ؟ کیاجب ہم سب قلاش ہو جائیں گے تب خوشحالی آئے گی؟ کیا ہم صفر پر جا کر واپس آئیں گے یا کہیں درمیان سے بھی واپسی ہو سکتی ہے؟
یوتھ صاحب! اب ہماری ہمت جواب دے رہی ہے، ہمارے ہاتھ کھڑے ہونے والے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے کچھ وقت آپ کو اور مل گیا ہے مگر اس سے زیادہ کیا ہماری جان لو گے؟ والسلام
اولڈ مین
حال مقیم نیا پاکستان، مقامی باشندہ پُرانا پاکستان