مٹی کے موتیوں کی مالا

موضوعات اتنے ہیں کہ ان کی مالا بنائے بغیر گزارہ نہیں، مالا چاہے مٹی کے موتیوں ہی کی ہو ۔دلچسپ اتفاق ہے کہ 19مارچ ’’جنگ‘‘ کے صفحہ اول پر سپر لیڈ تھی کہ ’’اگر پاکستان نے آبادی کنٹرول نہ کی تو معیشت 20کی بجائے 10کھرب ڈالر تک محدود رہے گی ’’یعنی پاکستانیوں کے لئے خوشحالی خواب ہی رہے گی۔ ورلڈ بینک کی اس وارننگ کے عین پیچھے ’’چوراہا‘‘ میں بھی اس بے لگام بڑھتی ہوئی خود کشیانہ آبادی کا نوحہ تھا جس میں قارئین سے یہ بات شیئر کی گئی تھی کہ ’’ٹیکنالوجی کی وجہ سے آنے والے سالوں میں بے روزگاری ایک گلوبل ایشو بننے والی ہے جو ترقی یافتہ ملکوں کو بھی تگنی کا ناچ نچا دے گی۔

ہم تو ابھی ترقی پذیر بھی نہیں تو ہمارا کیا بنے گا؟‘‘اچھی خبر یہ کہ پنجاب میں بہبود آبادی جیسی وزارت کرنل (ر) ہاشم جیسے متحرک، محنتی، مخلص اور زرخیز دماغ شخص کے پاس ہے جو تخلیقی انداز میں اس بہت بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لئے مصروف کار ہے۔ ہمارے جینوئین اور جید علماء کو بھی چاہئے اس جہاد میں کرنل ہاشم کے ہاتھ مضبوط کریں کے مومن تو ہوتا ہی وہ ہے جو اپنے عصر کے تقاضوں کو سمجھتا ہو جیسے آج دشمن ہم پر حملہ آور ہو تو ہم غزوہ خندق کی طرح خندقیں نہیں کھودیں گے کہ آج کی ٹیکنالوجی بالکل مختلف ہے یا جیسے ہمیں گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ آج کا گھوڑا ٹینک ہے۔

پنجاب کی بات چلی تو پنجاب کا ایک پہلوان بشیر بھولا بھالا یاد آیا اور اس کے بھولپن سے اپنا بزدار بھولا بھالا یاد آیا جسے وزیراعظم عمران خان نے گورننس بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ گزشتہ 22برس سے عمران کے ساتھ جان پہچان اور شناسائی کی بنیاد پر میں بہ آسانی کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے صبر، ضبط، برداشت وغیرہ کا پیمانہ خاصا کشادہ ضرور ہے لیکن لامحدود ہرگز نہیں۔ اپنی ذاتی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کے لئے اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اسے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا نہیں تو سیکنڈ لاسٹ تنکا ضرور سمجھ لیں کہ اب مزید کسی ایڈونچر کی گنجائش ہرگز نہیں۔ جو ماجد خان کو ٹیم سے باہر نکال سکتا ہے وہ کسی عثمان کو بھی فارغ کر سکتا ہے۔ ’’آخری موقع‘‘ ملنے پر بھی افواہوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اک اخبار (جنگ نہیں) کی یہ خبر میرے سامنے ہے کہ….’’مخدوم ہاشم جواں بخت، مراد راس اور میاں اسلم اقبال امیدواروں کی دوڑ میں شامل۔ ذرائع۔‘‘یہ ایک متھ کے سوا کچھ نہیں کہ جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کے ازالہ کے لئے وہاں سے وزیر اعلیٰ لایا جائے کہ بزدار بھولا بھالا بھی تو وہیں سے دریافت ہوئے اور ان لوگوں کی فہرست بہت ہی لمبی ہے جو جنوبی پنجاب سے آئے اور اپنے لوگوں کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا کہ ان کا مائینڈ سیٹ ہی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنے لوگوں کی بہتری بھلائی، اپ گریڈیشن کے لئے کچھ کریں اور یہ میں نہیں، تاریخ کہہ رہی ہے۔ ویسے بھی ایشو یہ نہیں کہ وہاں سے کوئی جاگیر دار لے آئیں….. کہیں سے کسی کو لے آئیں لیکن یقینی صرف اس بات کو بنائیں کہ وہ سائوتھ پنجاب کے لئے سچ مچ کچھ کر کے دکھائے۔

عملیت پسندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ بندہ ’’لاہور شریف‘‘ سے ہی ہو تو بہتر ہے کیونکہ جیسے لوہا، لوہے کو کاٹتا ہے….. کوئی ازلی ابدی لاہوریا ہی جاتی امرا لہوریوں کا توڑ کر سکتا ہے کہ ان کے طریقہ واردات سے واقف ہو گا۔ لاہور کو ہائی جیک کرنے کے لئے سابق ’’حکمران خاندان‘‘ نے جو جو کچھ کیا، اس پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے لیکن اس پر پھر کبھی۔ بہتر ہو گا اگر کسی جاگیردار اور ناتجربہ کار سے بچ کے رہا جائے کہ وسیم اکرم پلس کے بعد وسیم اکرم مائینس بھی نہ چلے گا نہ جچے گا کیونکہ پنجاب بہرحال فیصلہ کن ہے۔ باقی بہرحال وہی بہتر جانتے ہیں جن کے سیاسی سروائیول کا مسئلہ ہے۔اور اب اک ایسا موضوع جو میرے محبوب ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔ چند روز قبل ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں تعلیمی اداروں میں ’’ڈریس کوڈ‘‘ کے حوالہ سے خوب گرما گرم بحث ہوئی جو میرے نزدیک یکسر بے معنی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ میں ذاتی طور پر اہل مغرب کا بہت مداح ہوں۔

صنعتی انقلاب کے بعد سے لیکر آج کی دنیا ، جو کچھ بھی ہے بنی نوع انسان کے لئے مغرب کا تحفہ ہے۔ فلش سسٹم سے لے کر بجلی اور بھاپ کے انجن تک، کار سے لے کر کمپیوٹر تک، ماچس سے لے کر ہینڈ پمپ تک، ایئر کنڈیشنر سے لے کر مائیکرو ویو اوون تک، جدید ترین طبی مشینوں اور آلات سے لے کر ادویات تک، پولٹری اور ہائبرڈ سیڈ سے لے کر چاند اور مریخ کے سفر تک، ہوائی جہاز سے لے کر آواز کو پڑھنے تک سالوں کی مسافت کو گھنٹوں میں سیکڑنے تک، جمہوریت سے لے کر مالیاتی نظام تک، عمودی سے لے کر افقی عمارتوں کے تصور اور تعمیر تک،….ایجاد، دریافت، اختراع کی ان گنت مثالیں ہیں جن کا مجھ جیسا غیر سائنسی آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن لیکن لیکن….اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اہل مغرب کی ہر شے ہمیں بھی انہی کی طرح راس آئے یا سوٹ کر جائے اور اس میں قصور چیزوں یا رویوں کا نہیں…بنیادی طور پر ارتقاء کی منازل اور مختلف مراحل کا ہے۔

مختلف انسانی معاشرے مختلف ادوار سے گزر رہے ہوتے ہیں اور ان کی ضروریات، ترجیحات، خواہشات کا تعین بھی اسی حساب سے ہوتا ہے۔ بات اچھائی برائی کی نہیں، نوزائیدگی، بچپن، جوانی، بلوغت بڑھاپے کے تقاضوں کو سمجھنے کی ہے جیسے نوزائیدہ بچے اور جوان کی خوراک میں فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح معاشروں کی ’’خوراکوں‘‘ میں بھی فرق کی تمیز ہونی چاہئے۔ یہ جاننا سمجھنا ضروری ہو گا کہ کوئی معاشرہ شیر خوری بچپن سے گزر رہا ہے، جوانی کے مرحلہ میں ہے، ادھیڑ عمری میں داخل ہو چکا یا بوڑھا ہو کر زوال پذیر ہے۔اہل مغرب کی بہت سی چیزیں ہمیں اس لئے سوٹ نہیں کرتیں کہ ہم ارتقاء میچورٹی، تربیت کے مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں سو تعلیمی اداروں میں ’’ڈریس کوڈ‘‘ اگر مغرب میں فیڈ آئوٹ ہو رہا ہے تو ضروری نہیں کہ ہمارے لئے بھی غیر ضروری ہو گیا ہو۔لمبی بحث ہے، باقی پھر کبھی کہ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے