العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ آنے والا تھا، احتساب عدالت اسلام آباد کے باہر ہجوم میں سے جب سابق وزیراعظم نوازشریف کی گاڑی گزری تو نعرے گونج رہے تھے، دیکھو دیکھو، کون آیا!!! یہاں تک تو میں نے سنا ،،، شیر آیا شیر آیا بھی شاید کہا ہوگا ،،، کہ جیسے ہی گاڑی پولیس کی لگائی باڑ کے پار ہوئی، میں نے دیکھا کچھ کارکن آگے بڑھ رہے تھے، کچھ سیانے انہیں پیچھے دھکیل رہے تھے، شاید ایک دو پتھر بھی پولیس پر اچھالے گئے ہوں گے اس دوران کہ پولیس کا صبر پھول کر پھٹ گیا، کارکن، صحافی سب رونے لگے، پولیس نے آنسو گیس کے شیل جو چلا دئیے تھے ۔
اور اگلے چند لمحوں میں “عوام کا جم غفیر” منتشر ہوگیا، میاں صاحب کو ہوئی سزا، اور وہ بنے جیل کے مہمان
اب ایک نیا سین دیکھنے میں آیا، پیپلزپارٹی پر بات آئی تو چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری نیب میں پیش ہوئے، نیب کی پرانی بلڈنگ بنی مرکز تو کارکن جمع ہوگئے۔ شاید کارکنوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔ پولیس کا پلان تھا کہ کارکنوں کو عمارت سے دور، پارٹی رہنماؤں کو عمارت کے باہر تک روکے گی، لیکن پولیس کی تیاری “مسلم لیگ ن مارکہ” تھا لیکن امتحان میں پیپلزپارٹی آگئی !!!
گھمسان کے رن میں دباؤ کس پر پڑا۔۔۔ بتانے کی ضرورت نہیں، کوشش کس نے کی؟ بلاول نے تو صاف کہہ دیا، انہوں نے کسی کو نہیں بلایا، پھر ان بن بلائے مہمانوں کی تعداد اتنی تھی تو بلائے کا عالم خدا کی پناہ، لیکن میں پھر دباؤ میں آگیا ہوں، میرے علاوہ بھی جانے کس کس پر کہاں کہاں دباؤ پڑا ہوگا، سٹریٹ پاور شو کرنی تھی کردی، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ بے نظیر بھٹو کی پیشیوں کی منظر کشی بھی کریں گے، لیکن تب الزامات سیاسی تھے، نقص امن، اب نقص معیشت، تب نظربندی بھی ملی، اور پولیس کی بوسیدہ وینز میں بےنظیر بھٹو کی پیشیاں ہوتی رہیں، اب بلاول بھٹو اور ان کے والد جس گاڑی میں پیش ہوئے اس کا ماڈل یاد نہیں، البتہ رنگ کالا تھا ایک کا، اور کم از کم قیمت بھی نہیں معلوم، لیکن تھی بیش قیمت، اب الزامات نہیں تحقیقات ہیں ۔
تب واقعی “ایک نہتی لڑکی” لڑ رہی تھی۔ اور اب نہتا کوئی بھی نہیں ، "بن بلائے مہمان” بھی تیاری سے آئے تھے، بات پھر بھی دباؤ کی ہے، اس سے آگے تو پر جلتے ہیں، اور زباں بھی ۔۔۔۔
“ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی”۔۔۔۔