شادی سے بھاگنے والی لڑکیوں کا انجام

سترہ سالہ عنبرین کو سزا دینے کے لیے تیرہ بزرگوں کا جرگہ بیٹھتا ہے۔ الزام کیا ہے۔ عنبرین نے اپنی ایک سہیلی کو اس کی مرضی کے خلاف رشتہ ہونے پر گھر سے فرار ہونے میں مدد دی تھی۔ فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ چیختی چلاتی بے بس عنبرین کے گلے میں پھندا ڈال کر اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ لاش ایک پرانی گاڑی میں ڈال کر ڈونگا گلی لائی جاتی ہے اور اسی گاڑی میں نذر آتش کر دی جاتی ہے۔

ڈونگا گلی سے کچھ دور دیول ہے۔ انیس سالہ ماریہ بی بی ایک سکول کی معلمہ ہے۔ سکول کے مالک شوکت کے 40 سالہ شادی شدہ بیٹے کے رشتے سے انکار کرنا اس کا جرم ٹھہرا ہے۔ شوکت پانچ لوگوں سمیت اس کے گھر میں گھستا ہے۔ ماریہ کو گھسیٹ کر باہر نکالا جاتا ہے اورسرعام اسے فٹ بال بنا دیا جاتا ہے۔ مسلسل لاتیں اور ٹھڈے کھا کر اس کا جگر اور تلی پھٹ جاتی ہے۔ مگر شوکت کی مجروح انا کی تسلی نہیں ہوتی۔ منہ سے خون تھوکتی ماریہ پر پیٹرول انڈیل کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔ شیطانی ٹولہ رخصت ہوتا ہے تو آخری سانسیں لاتی ماریہ کو ہسپتال پہنچایا جاتا ہے جہاں تھوڑی دیر میں اس کا جھلسا زخم زخم جسم زندگی کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔

سرگودھا کی مہوش بس کمپنی میں ہوسٹس ہے۔ کمپنی کا اوباش گارڈ ابرار اسے شادی کی پیشکش کرتا ہے۔ مہوش کو لگتا ہے کہ جیسے وہ ملازمت کرنے کے لیے آزاد ہے اسی طرح رشتہ ٹھکرانے میں بھی آزاد ہے۔ سو وہ انکار کر دیتی ہے۔ اگلے ہی دن ابرار اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اس کے سینے میں دو گولیاں اتار دیتا ہے۔ مہوش بس سٹینڈ کے ایک کونے میں سسکتی ہوئی کچھ دیر میں جان دے دیتی ہے۔

یہ لکی مروت کا میلامندراخیل گاؤں ہے۔ طاہر عباس کا ارادہ شیریں بی بی سے شادی کا ہے۔ شیریں کی عمر محض سولہ سال ہے۔ ابھی وہ شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس کی آنکھوں میں بہت سارے خواب ہیں۔ اپنے بھائی کے توسط سے وہ انکار کر دیتی ہے۔ اسی شام طاہر عباس گھر میں داخل ہوتا ہے اور اس کے سر میں گولی مار کر اس کے سارے خوابوں سمیت اسے قتل کر دیتا ہے۔

اسما رانی ایوب میڈیکل کالج میں ایم ایم بی بی ایس کے تیسرے سال میں پڑھ رہی ہے۔ کوہاٹ میں ایک بااثر خاندان اپنے سپوت مجاہداللہ کے لیے اس کا رشتہ بھیجتا ہے۔ مجاہد اللہ کم تعلیم یافتہ ہے۔ شادی فوری کرنے کا ارادہ ہے اور شادی کے بعد اسما کی پڑھائی ایک ناممکن امر ہے۔ اسما ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ وہ صاف انکار کر دیتی ہے۔ مجاہد اللہ یہ کیسے مان لے کہ لڑکی کے پاس بھی انکار کا حق ہے۔ چھٹیوں میں اسما کوہاٹ پہنچتی ہے تو مجاہداللہ اپنے پستول کے ساتھ اس کے استقبال کو موجود ہوتا ہے۔ دو گولیاں کافی ہوتی ہیں۔ مسیحائی کی ہر آرزو مٹی کے نیچے سلا دی جاتی ہے۔

فیصل آباد کا پچیس سالہ شعیب چاہتا ہے کہ اس کی بہن سعدیہ اس کے دوست اکرم سے شادی کر لے۔ سعدیہ ابھی اٹھارہ سال کی ہے۔ پڑھنا چاہتی ہے اور اکرم اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ شعیب کی بات ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ شعیب اصرار کرتا ہے۔ وہ پھر انکار کرتی ہے۔ تکرار جھگڑے میں بدل جاتی ہے۔ جوں جوں سعدیہ کی آواز اونچی ہوتی ہے، شعیب کا صبر رخصت ہوئے جاتا ہے۔ بھائی کا حکم مقدم ہونا چاہیے۔ شعیب ایک دفعہ پھر سعدیہ کو سمجھاتا ہے۔ سعدیہ نہیں سمجھتی۔ اب چارہ ہی کیا ہے۔ منہ زور بہن کے سر میں شعیب ایک گولی اتار دیتا ہے تاکہ سرکشی کا جنون ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

اکیس سالہ زہرہ لاہور کے ایک تعلیم یافتہ امیر گھرانے سے ہے۔ ایک دن اس کی ماں اس بتاتی ہے کہ اس کا رشتہ امریکا میں مقیم اسامہ سے طے کر دیا گیا ہے۔ زہرہ یقین نہیں کر پاتی کہ اس کی مرضی کے بغیر رشتہ کیسے ممکن ہے۔ وہ انکار کرتی ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ والدین جو سوچتے ہیں وہی بہتر ہے۔ "کیا تم ہم۔سے بہتر جانتی ہو”۔ یہ الفاظ ہیں اس کی ماں کے۔ زہرہ کی ہر التجا رد کر دی جاتی ہے۔ زہرہ کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ وہ روزانہ پیناڈول کا ایک پورا پتہ کھانا شروع کر دیتی ہے، اس آس میں کہ شاید اس سے وہ مر جائے۔ اس کی طبعیت بہت زیادہ خراب رہنے لگتی ہے مگر گھر میں کوئی اثر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ شادی کا دن آن پہنچتا ہے۔ زہرہ کے اعصاب اس کے قابو میں نہیں ہیں ۔ اس کو لگتا ہے وہ ایک دبیز دھند میں تیر رہی ہے۔ اسی عالم میں اس سے نکاح نامے پر دستخط کروائے جاتے ہیں اور وہ یکایک والدین کی ملکیت سے ایک اور انجانے شخص کی مِلک میں منتقل ہو جاتی ہے۔ برسوں بعد یہ قصہ وہ ایک صحافی ہیلینا بالا کو سناتے ہوئے پوچھتی ہے کہ اگر ایک ماڈرن پڑھی لکھے خاندان میں لڑکی کی مرضی کی یہ حیثیت ہے تو عام لڑکیوں کو تو کوئی بھیڑ بکری سے زیادہ وقعت نہیں دیتا ہو گا۔

میرا ایک دوست عالمی شہرت یافتہ موسیقار ہے۔ اس کی ایک لڑکی سے جان پہچان دوستی اور محبت میں بدلی۔ وہ باقاعدہ رشتہ لے کر گھر پہنچا تو لڑکی کے باپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم گانے بجانے والوں میں رشتہ نہیں کرتے۔ لڑکی کے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ کے اندر اندر اس کی شادی ایک ایسے شخص سے کر دی گئی جو اس سے عمر میں بیس سال بڑا اور تین بچوں کا باپ تھا۔

مسلک، ذات، برادری اور قبیلے کی بنیاد پر روزانہ کتنے ہی ایسے خوابوں کا خون ہوتا ہے جہاں لڑکا اور لڑکی تو راضی ہوتے ہیں پر معاشرے کے مطلق العنان قاضی، سماج کے رواج اور مذہب کے اصولوں کے رانجھے ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ونی اور سوارہ میں دیے گئے رشتے اور قرآن سے کی گئی شادیوں کا تو ذکر ہی کوئی نہیں۔ اوپر بیان کیے گئے قصے تو مشتے از خروارے سے بھی کم ہیں۔ روز کا اخبار ایسی دس کہانیاں سناتا ہے۔

پر یہ سب ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ ایک صاحب کے مطابق اٹ از پارٹ آف دا گیم سو ہم سب یہ ہوتے دیکھتے ہیں ۔ کبھی کبھی دبی دبی آواز بھی بلند کر دیتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ آواز بلند کرنے والوں میں سے بھی بہت سے اپنے گھروں میں اپنی بیٹیوں کو بھی یہ حق دینے کو تیار نہیں۔ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی اکثر وبیشتر منہ میں گھونگنیاں ڈال کر بیٹھی رہتی ہیں۔ تو بھائی بات یہ ہے کہ شادی مرضی کی ہو تو اس سے کوئی فرار کیوں ہو گا پر یہ شادی مرضی کی نہ ہو تو بھی ہم کسی کو فرار ہونے نہیں دیں گے چاہے کریم پر فرار ہو یا کریم کے بغیر کیونکہ اس سے ہماری اقدار کا جنازہ نکل جائے گا۔ اس سے بہتر ہے کہ لڑکی اگر بالکل ہی انکاری ہے تو اسے گولی مار دی جائے، گلا گھونٹ دیا جائے، زندہ دفنا دیا جائے یا جلا کر بھسم کر دیا جائے۔ رہے نام اللہ کا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے