بلاول بھٹو زرداری نے ابھی تک کوئی سرکاری منصب حاصل نہیں کیا مگر احتساب بیورو میں طلب کرلئے گئے ہیں۔
متوازی عدالت لگانے کی مجھے عادت نہیں۔ان کے طلب کرنے کی جووجوہات ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے سامنے آنا شروع ہوجائیں گی۔ یہ قصہ کسی منطقی انجام تک پہنچے تو رائے دینے میں آسانی ہوگی۔ فی الوقت ان کی طلبی کو میں ایک قطعی مختلف زاویے سے دیکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں۔بلاول بھٹو زرداری سے میری پہلی ملاقات تقریباََ چار برس قبل ہوئی تھی۔ ان کے اسلام آباد والے گھر میں بختاوربھٹو زرداری بھی ان کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ موصوف کی ٹانگ پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔ غالباََ گھوڑے سے گرگئے تھے۔
یہ ملاقات رسمی تعارف اور عمومی گفتگو تک محدود رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد آصف علی زرداری بھی وہاں آگئے۔ سابق صدر کے ساتھ میری کافی بے تکلفی ہے۔ دوروز قبل انہوں نے ’’اینٹ سے اینٹ‘‘ بجادینے والی تقریر کی تھی۔ میں اس کے تناظر میں اس تقریر کا سبب جاننے کی کوشش کرتا رہا۔حسبِ عادت انہوں نے وجوہات بتانے سے گریز کیا۔ ہم پھکڑپن کو لوٹ آئے اور پھر میز پر کھانا لگ جانے کی آواز آئی۔ بلاول بھٹو زرداری سے میری دوسری ملاقات میں قمرزمان کائرہ اور ندیم افضل چن بھی موجود تھے۔ آصف علی زرداری امریکہ میں تھے۔یہ ملاقات بھی سیاسی معاملات پر عمومی گفتگو تک محدود رہی۔ ان کی شخصیت کھل کر میرے سامنے نہ آ پائی۔ اس ملاقات میں لیکن ایک مرحلے پر بلاول نے بہت عاجزی سے اعتراف کیا کہ لوگ ان کی سیاست کا محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست سے موازنہ کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کہ ہم دونوں کے سیاست میں آنے کا زمانہ اور پسِ منظر ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔سچی بات ہے اس روز میں نے ان کی جانب سے ادا ہوئے اس فقرے کو زیادہ گہرائی میں جاکر نہیں دیکھا تھا۔
بدھ کے روز وہ احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لئے احتساب بیورو گئے تو ٹیلی وژن پر اس کے بارے میں رپورٹنگ دیکھتے ہوئے مذکورہ فقرہ یاد آگیا۔ میں سوچنے کو مجبور ہوگیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو ہمارے سیاسی منظرنامے پر اس وقت اُبھریں جب ان کے والد کی حکومت مارشل لاء کی بدولت ہٹائی جاچکی تھی۔اقتدار سے الگ کردینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کا مقدمہ بناکر گرفتار کرلیاگیا۔نظر بظاہر بے نظیر بھٹو اپنے والد کی جان بچانے کے لئے سیاست میں ’’نہ چاہتے ہوئے‘‘ آئیں۔ان کی جدوجہد مگر پھانسی کو ٹال نہ پائی۔ اس دوران کئی بار انہیں ’’حفاظتی نظربندی‘‘ کے نام پر گھروں میں محصور رکھا گیا۔4اپریل 1979ء کے واقعہ کے بعد وہ اپنے والد کے جسدِ خاکی کو دیکھ بھی نہ پائیں۔ اس واقعے کے بعد سے ان کی پہچان ایک مظلوم بیٹی کی طرح اُبھرنا شروع ہوئی جو اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔
وسیع ترتناظر میں یہ پہچان ایک Victimکی رونمائی کا سبب ہوئی۔ والد کی ایک فوجی آمر کے ہاتھوں پھانسی اور بعدازاں اس کی حکومت کے خلاف جدوجہد کے طویل برس۔اس پسِ منظر کی بنیاد پر ہم یقینا سمجھ سکتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں انہیں کیرئیر کی ابتداء ہی میں ایک Edgeنصیب ہوئی جو مظلومیت کے علاوہ جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد توانا تر کرتی چلی گئی۔بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کے بہیمانہ قتل کے بعد سیاست میں نمودار ہوئے۔ اس سانحے کی وجہ سے انہیں یقینا لوگوں سے ہمدردی ملی۔ محترمہ کی شہادت کے چند ہی ہفتوں بعد مگر پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔ ان کے والد پاکستان کے طاقت ور صدر ہوگئے۔ صوبہ سندھ میں 2018سے پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت چل رہی ہے۔
سیاست میں Incumbencyمگر بہت خطرناک ہوتی ہے۔اچھی سے اچھی حکومت بھی لوگوں کی تمام توقعات پر پورا اُترنے میں ناکام رہتی ہے۔ حکومتوں کے بارے میں شکایتیں، مایوسی اور بددلی ہی پھیلتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین ہوتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری ان شکایتوں یا مایوسی کا بوجھ اپنے سر بھی لینے کو مجبور ہیں۔ انہیں وہ Edgeمیسر نہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو کو 1988میں اقتدار میں آنے تک حاصل رہی۔یہ Edgeمسلسل دس برس تک برقرار رہی۔
بلاول بھٹو زرداری کو قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے چند ہی دنوں بعد جعلی اکائونٹس کے نام پر اُچھلے میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ غیر جانب دارلوگوں کی اکثریت کی نظر میں وہ ایک Clean Slateکے ساتھ اپنے کیرئیر کا ایک Fresh Faceکی صورت آغاز نہیں کررہے۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ سچا ہے یا جھوٹا مگر اپنے کیرئیر کے آغاز ہی میں ان پر الزامات کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اس بوجھ کا تقابل محترمہ بے نظیر بھٹو کی Edgeسے ہونہیں سکتا۔ 1988میں اقتدار سے قبل وہ جب بھی گرفتار ہوئیں تو اس کی وجوہات ہمیشہ ’’سیاسی‘‘ نظر آئیں۔ کرپشن کی بنیاد پر لگائے الزامات کے بوجھ سے وہ آزاد رہیں۔
اپنے کیرئیر کے انتہائی ابتدائی ایام میں نیب کی جانب سے طلب کیے جانے کے بعد بلاول بھٹو زرداری اب کسی Edgeسے لطف اٹھانے کے بجائے Handicapہوئے نظر آئیں گے۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر میں اشرافیہ سے نفرت عروج پر ہے۔ہمارے لوگوں کی کافی بڑی تعداد بلاول بھٹو زرداری کو کوئی حکومتی عہدہ نہ لینے کے باوجود نازونعم میں پلااشرافیہ کا نمائندہ سمجھے گی۔ ’’وراثتی سیاست‘‘ کے خلاف موجود جذبات کیساتھ ہی ساتھ انہیں خود کو مالی اعتبار سے بھی صاف ستھرا ثابت کرنا ہوگا۔
اپنی صفائی کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری کو بہت مہارت سے اپنے اس دعوے کو بھی سچا ثابت کرنا ہوگا کہ نیب کی جانب سے ان کی طلبی درحقیقت Political Engineeringکا نتیجہ ہے جس کا حتمی ہدف سندھ حکومت کو ان کے وفاداروں سے چھین کر ’’دوسروں‘‘ کے حوالے کرنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا مقدر ہوا ہدف بے تحاشہ مشقت اور سیاسی ذہانت کا طلب گار ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اس سے کیسے نبردآزما ہوتے ہیں۔