جناب عالی!

اِس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ جناب عالی بہت پڑھے لکھے ہیں، آئین پر مکمل دسترس رکھتے ہیں، کرپشن سے کوسوں دور ہیں، اِسی لئے کرپشن سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ جناب بہت ہی دلیر ہیں۔ سو خطرات ہوں، جسے صحیح سمجھتے ہیں وہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاریخ کا تاج آپ کے سر پر ہے، دیکھنا یہ ہو گا کہ آپ تاریخ کو بدلیں گے یا پھر اپنی باری لے کر چلے جائیں گے؟

جناب عالی!

آپ کی ادب اور تاریخ سے دلچسپی اور اِن موضوعات پر عبور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اِسی لئے ٹروجن جنگوں کا ایک واقعہ دہرا رہا ہوں۔ بہادر سورما اکیلیس جدھر جاتا تھا لاشوں کے ڈھیر لگا دیتا تھا، جنگ میں کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے اگر کوئی دشمن اُس کے جسم پر تیر یا تلوار چلاتا تو اُسے کوئی گزند نہ پہنچتی کیونکہ دیوتائوں نے اس کے سارے جسم کو امر بنا دیا تھا۔ اِس دیو مالائی کہانی کے مطابق اکیلیس میں بس ایک ہی کمی تھی اور وہ اس کی ایڑی تھی۔ اکیلیس کی ایڑی (Achilles’ heel) اس کی کمزوری تھی، اِسی لئے اُس کے دشمن پیرس نے اُس کی ایڑی کو نشانہ بنایا تو ناقابلِ تسخیر اکیلیس جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ گویا انسان جتنا بھی طاقتور ہو اس کی کمزوریاں اُسے لے ڈوبتی ہیں۔

جناب عالی!

عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا دور زریں تھا، الف لیلہ کی کہانیاں لکھی جا رہی تھیں، عربی شاعری اوجِ کمال پر تھی، موسیقار اور گلوکار دربار سے انعام و اکرام پاتے تھے، رعایا خوش تھی، سب کچھ ٹھیک تھا مگر ہارون کے خاندانِ برامکہ پر مظالم اور اپنے محسنوں یحییٰ اور جعفر سے انتقام، تاریخ کے صفحات کالے کر گیا۔ کہاں عہدِ زریں اور کہاں یہ سیاہ ابواب۔ ہارون الرشید اپنے مقام سے بہت نیچے گر گیا تھا۔

عالی جناب!

غیر جانبداری اور ایمانداری کبھی جزوی نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ ’’کلّیت‘‘ میں ہو تو ہی دنیا مانتی ہے۔ انگریز کا انصاف ہندوستانی آزادی پسندوں کے لئے اور تھا اور امن پسند شہریوں کے لئے اور۔ اپنی حکومت اور اپنے نظریات کے خلاف اُن کی غیر جانبداری اور ایمانداری دم توڑ دیتی تھی۔ یہ تعصب، یہ دو عملی ہی اُن کے زوال کا سبب بنی۔ کسی ایک شخص سے تعصب، نفرت یا غصہ زندگی بھر کے لئے اچھے فیصلوں کو داغدار کر دیتا ہے۔ یہ جانبداری اکیلیس کی ایڑی بن جاتی ہے اور پھر ساری اچھائیوں کے باوجود تاریخ صرف اُس کمزوری کا ذکر کرتی ہے، جس نے اسے کلی ایمانداری اور غیر جانبداری کے آئیڈیل تک پہنچنے نہیں دیاہوتا۔

جناب عالی!

آپ کے بارے میں یہ شک و شبہ تک بھی نہیں کہ آپ کسی کے اثر میں آتے ہیں، آپ تو کسی ایسے ویسے سے ملتے تک نہیں، ہدایات لینا تو کجا آپ تو ابھی تک اُن کو ٹائم تک نہیں دے رہے۔ یہ سب بجا مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ آپ بھی پچھلوں کی طرح صرف چھوٹے بدمعاشوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے اور سب سے طاقتور کے خلاف زبان بند رکھیں گے؟ مظلوم کو اور دبائیں گے اور ظالم کے ایجنڈے کی بالواسطہ تکمیل کریں گے یا آئین کے تحت دی گئی انسانی آزادیوں کو بڑھائیں گے؟ آئین کی وہ تشریح کریں گے جس سے آزادیاں بڑھیں یا آئین کی وہ تشریح کریں گے جس سے گھٹن میں اور اضافہ ہو؟

جناب عالی!

کیا آپ کو لگتا ہے کہ اِس ملک میں بنیادی انسانی حقوق پر عمل ہو رہا ہے، نیب کا قانون، آئین سے متصادم ہے یا نہیں؟ صحافت کتنی آزاد ہے، اگر یہ آپ جیسے عالم فاضل کو علم نہیں تو پھر پاکستان میں آئین پر عمل کیسے ہو گا؟ کیا آپ اِس حوالے سے کوئی قدم اٹھائیں گے یا صحافیوں کو اسی طرح پستا ہوا رہنے دیں گے۔

عالی مرتبت!

آپ کا مقام بہت بڑا ہے، آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ ماضی میں جس نے ایسا کیا اُس نے سزا پائی لیکن آپ ماضی سے مختلف ہیں، اِس لئے عرض کرتا ہوں کہ جسٹس انوار الحق نے زندگی بھر اچھے فیصلے کئے مگر تاریخ نے اُنہیں بھٹو کے فیصلے سے یاد رکھا۔ یہ فیصلہ اکیلیس کی ایڑی تھا جو جسٹس انوار الحق کی ساکھ کو تباہ کر گیا۔ تاریخ کے فیصلے لمحوں میں ہوتے ہیں، حُر قافلہ یزید میں ہوتا تو مردِ حُر کی جگہ کوئی نئی اصطلاح جنم لیتی، حُر نے جان تو دے دی مگر حُر نام کو ہمیشہ کیلئے حریت اور بہادری کا استعارہ بنا دیا۔

والا تبار!

سنا ہے قوموں اور بڑے لوگوں کی لمحوں کی خطا کو برسوں بھگتنا پڑتا ہے۔ انگریز جب 1849میں منزل پر منزل مارتے پنجاب کو فتح کرتے جا رہے تھے، سردار شیر سنگھ اٹاری والا کے مقابلے میں آئے تو منہ کی کھانا پڑی۔ جلیانوالہ کی جنگ میں انگریزوں کو اس قدر نقصان ہوا کہ اُنہیں ہندوستان کا فوجی سربراہ ہٹانا پڑا۔ حد تو یہ ہوئی کہ برطانوی فوج خود اپنے ہی فائر میں آگئی، پورس کے ہاتھی مشہور تھے کہ اپنی ہی فوج کو کچل گئے تھے۔ برطانوی فوج نے بھی کچھ ایسا ہی کیا، کمانڈر انچیف کو لمحوں کی سزا برسوں تک ملتی رہی۔ یہ الگ بات کہ فاتح شیر سنگھ بھی بعد میں گرفتار ہو کر تادمِ مرگ بنارس جلا وطن رہا۔

مکرمی و محترمی!

دنیا کے فیصلوں میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے ہم سب عمر بھر سیکھتے ہیں، قدرت تجربے کے ساتھ شعور اور عقل بھی دیتی ہے۔ ہم ساری زندگی محتاط ڈرائیونگ کرتے ہیں کہ اُس بڑے حادثے سے بچ سکیں جو بے احتیاطی سے ہو سکتا ہے، حالانکہ بے احتیاطوں کو بھی ہر روز حادثہ پیش نہیں آتا۔ تاریخ کسی ایک لمحے میں آپ کا امتحان لیتی ہے۔ ساری زندگی آپ کو تیار کیا جاتا ہے اور صرف ایک لمحے میں آپ پاس یا فیل ہو جاتے ہیں۔ عمر بھر ہم انصاف کرتے ہیں اور پھر ایک بہت ہی نازک ترین معاملے پر غصے یا تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، یہی فیصلہ ہمیں پاس یا فیل کر دیتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب ایک غلط فیصلے نے قوموں اور لیڈروں کو تباہ کر ڈالا۔ ہٹلر اگر روس پر حملہ نہ کرتا تو تاریخ مختلف ہوتی، نپولین اپنی فتوحات تک محدود رہتا، ایک نیا محاذ نہ کھولتا تو شاید وہ عظیم فاتح کے طور پر ہی یاد رکھا جاتا ہے۔

عالی مقام!

آپ سب سے اونچی کرسی پر براجمان ہیں۔ آئین میں لکھے ہوئے الفاظ پر اُن کی روح کے مطابق عمل کروا جائیں، بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنا جائیں، اظہارِ رائےکی آزادی دیکھتے ہی دیکھتے کم ہوتی جا رہی ہے مگر بڑے ایوانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ یہ آزادی ختم ہوئی تو پھر پارلیمان کی آزادی اور عدلیہ کی آزادی بھی نہیں رہے گی۔ ایک آزادی دوسری آزادی کی حفاظت کرتی ہے اور ایک شعبے پر پابندی کامیابی سے نافذ العمل ہو جائے تو دوسرے شعبوں پر بھی پابندیاں لگانا آسان ہو جاتا ہے۔

جناب عالی!

تاریخ کا نازک ترین لمحہ ہے، جمہوریت اپنی ساکھ بچانے میں ناکام ہے، آئین کے تقدس پر نت نئے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ صوبائی خود مختاری پر جو قانون سازی کی گئی تھی، اُس پر تحفظات ظاہر کئے جارہے ہیں تو کیا ایسے میں کسی آئینی محافظ کا کام نہیں کہ وہ اِن مسائل اور تحفظات کا شافی جواب دے۔ وہ پچھلےکی طرح بے شک بولے نہ مگر عمل سے تو ثابت کرے۔ وہ وقت کا صلاح الدین ایوبی نہ سہی مگر جسٹس مارشل تو بن سکتا ہے، وہ ہر کسی سے محاذ آرائی نہ کرے مگر آئین کی جمہوری اور عوامی تشریح تو کر سکتا ہے۔ وہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے اور نہ چاہے تو پچھلے کی طرح سب کچھ کھلا چھوڑ کر جا بھی سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے