بھارت میں عام انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد‘ پورے ملک میں ہلچل مچ گئی ہے۔ تمام پارٹیاں اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اور لگانا بھی چاہئے کیونکہ اقتدار کے حصول کے بعد ‘ عوام کی خدمت کا دعویٰ تمام پارٹیوں کے منشور کی پہلی لائن ہو گا اور اس میں کوئی نئی بات نہیںلیکن سات عشروں کے بعد بھارت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے ‘ جہاں سے یہ طے ہونا ہے کہ2019ء کے بعد ہندوتوا راشٹر ہو گا یا پھر اس کی سیکولر جڑوںاور مشرقی قدروںکی سیرابی کی جائے گی۔
بقول کانگرس پارٹی کے صدر راہل گاندھی:بھارتی عوام کو2019ء میں یہ طے کرنا ہے کہ بھارت میں گوڈ سے کا راج چلے گا یا پھر گاندھی نظریات اور نہرو ماڈل کے مطابق ملک ترقی کرے گا۔ اس وقت سوال بھارت کے سامنے یہ ہے کہ کیا اس جمہوریہ کو بچا پائے گا ؟جس میں عوام کو اپنے نمائندے چننے کا پورا اختیار ہے اور نمائندے عوام سے بالا ترنہیں بلکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں یا پھر وہ اس طرح چلایا جائے گا کہ تاریخ میں ہٹلر کی برائون شرٹ اور مسولینی کی بلیک شرٹ کی طرح مودی کی جیکٹ کا ذکر کیا جائے گا اور مودی کو بھی اسی طرح یاد کیا جائے گا۔ سوال بہت سارے ہیں اوران سوالوں کا جواب خودا پنے ووٹ کے ذریعے سے سیکولر ازم میں یقین رکھنے والے بھارت کے 130 کرو ڑ عوام کو دینا ہی ہو گا۔ عوام کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لمحوں کی خطا‘ صدیوں پر بھاری پڑسکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر پارٹی کے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں ۔ اس سے پہلے کہ ہم اس بات پر بحث کریں کہ بھارت کی سیکولر پارٹیوں کو اس وقت کیا کرنا چاہئے ؟ عوام کو ایک بار پھر سے اس بات کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ مودی نے نوٹ بندی کے وقت کہا تھا کہ میرا کیا ؟میں تو جھولا لے کر آیا تھا اور جھولا لے کر چلا جائوں گا لیکن بھارتی وزیراعظم نے اس بات پر گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ آخر وہ اس جھولے میں کیا لے کر جائیں گے؟اور عوام کو مودی نے جس طرح سے ڈرا دھمکا کر گزشتہ پانچ سالوںمیں رکھا کہ وہ مودی سے سوالات پوچھنے کی ہمت ہی نہ کر سکے لیکن اتنا ضرورا ہوا کہ ان کے اس عمل سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ کاروبار ٹھپ ہو گیا۔
عوام سڑکوں پر آگئے اور کم وبیش150افراد نے اپنی جان گنوائی ۔تاہم راہل گاندھی نے جب عوام کے دل سے مودی سرکار کا خوف نکالنے کی کوشش کی تو انہوں نے سب سے پہلے مودی کو سوٹ بوٹ کی سرکارقرار دیا کیونکہ ایک طرف عوام بھوک کا شکار تھے۔ کسان پھانسی کے پھندے جھول رہے تھے۔ نوجوان سڑکوںپر آچکے تھے اور انہیں روزگار کے نام پر دن میں پکوڑے تلنے اور رات میں چوکیداری کرنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا ‘جبکہ مودی کے نئے نئے لاکھوں روپے کے سوٹ اور ان کے بوٹ سامنے آرہے تھے۔اس کے بعد سے ہی مودی سرکار پوری طرح سے ہل گئی اور بی جے پی ‘جو راہل گاندھی کی لیڈر شپ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھی‘ وہی بی جے پی راہل گاندھی کے ایک سوٹ بوٹ والے بیان کے بعد ‘وزیراعظم مودی اور ان کی سرکار کے دفاع میں سڑک سے سنسد تک ہنگامے پر آمادہ ہو گئی۔ایک بڑی فوج‘ مودی سرکار کے دفاع کے لئے اتار دی گئی۔گودی میڈیا کے لوگ چیخ چیخ کر مودی سرکار کی حمایت میں آگئے۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ ‘راہل کے وار کے بعد سامنے آئی تو گودی میڈیا کا اصل چہرہ بھی بے نقاب ہو گیا۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ریل کے ذریعے بی جے پی کی جانب سے چلائی گئی فلم کو کانگرس کے رواحِ رواں راہل گاندھی حقیقت میں دکھانے کے لئے ڈٹ گئے‘ جس سے بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔
راہل گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ چوکیدار‘ چور ہے۔خود کو بھار ت کا چوکیدار کہنے والے اور چوکنا چوکیدار بتانے والے وزیراعظم کی اس بیان سے جڑیں ہل گئیں ۔ایسا لگا جیسے چوکیدار تلملا سا گیا۔ جب چوکیدار تلملا جائے تو ان کے حواریوں کا تلملانا بھی فطری عمل ہے اور ایسا ہوا بھی۔پھر رافیل طیاروں کی سچائی سامنے آنے لگی ۔ اس حقیقت کو چھپانے کے لئے تاریخ میں پہلی بار ‘ مودی سرکار نے بھارتی سپریم کورٹ میں جھوٹ کا سہارا لیا‘ جس کے بعد پوری دنیا میں بھارتی وزیراعظم پر تھو تھو ہوئی ۔مودی سرکار نے اس پورے عمل کو حب الوطنی کا لبادہ پہنا دیا اور اس کی آڑ میںناجائز کاموں کو جائز قرار دینے کے لئے جدو جہد کی گئی‘ جس کے بعد مودی کی سربراہی والی سرکار کی کروڑوں روپے کی کرپشن سامنے آئی۔ چوکیدار کے ذریعے امبانی کو چھتیس ہزار کروڑ کی کرپشن کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ دوسری طرف اسمرتی ایرانی جو خود کو گنگا سے دھلی ہوئی بتاتی ہیں‘ ان پر بھی سنگین الزام لگا کہ کس طرح سے انہوں نے اپنے فنڈ کا غلط اور ناجائز استعمال کیا؟ اور کرایا؟ اور پھر فرضی حب الوطنی کی آڑ میں مودی اور اس کے حواریوں نے ان سارے ناجائز کاموں کو جائز قرار دے دیا جو اس سے پہلے کی حکومتیں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
راہل گاندھی کے نعرے سے پریشان‘ مودی نے اپنے نام کے آگے چوکیدار نریندر مودی لگا لیا تاکہ وہ بھارت کے چوکیداروں کو اپنے ساتھ ملا سکے‘ لیکن یہ تدبیریں بھی کارگر ثابت نہ ہو سکیں ۔ اصلی چوکیداروں کی اصلیت سامنے آگئی کہ کس طرح سے عوام ‘بارہ بارہ گھنٹے ایک معمولی سی تنخواہ پر نوکری کرنے پر مجبورہیں۔ پھر کیا تھا کہ عوام مودی سرکار پر سوشل میڈیا پر پوری طرح سے ٹوٹ پڑے۔ مودی سرکار کو آئینہ دکھانا شروع کر دیا اور سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ بن گیا کہ” نیرو مہیول کا وفادار ہوں۔ہاں! میں چوکیدار ہوں‘‘۔ اس نعرے کا جواب آنا لازم تھا کہ مودی سرکار کے غنڈوں نے چوکیدار کے لفظ کو اپنے نام کے ساتھ جوڑنا ترک کر دیا ۔ بات سوشل میڈیا پرنہیں رکی بلکہ عوام نے بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مشورہ دینا شروع کر دیا کہ ”پڑھ لکھ کر کیوں بیکار بیٹھے ہو؟ دن میں تلو پکوڑے‘ رات کو بنو چوکید ا ر ‘ ‘ ۔ بھارتی عوام نے ایک اور نعرہ لگایا کہ” بڑے لوگوں کے بنگلوں پر ہی چوکیدار ہوتے ہیں۔غریبوں کی کہاں اوقات چوکیدار رکھنے کی‘‘؟