ترقی کرنا ہے تو نئی دنیا سے سیکھنا ہو گا۔ اس کی توفیق نہیں تو کراچی، سیالکوٹ،گوجرانوالہ، وزیر آباد اور گجرات سے۔
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی، تری قسمت کی پستی ہے
بالآخر اس سنہری تکون کو کھوجنے کا موقع آیا۔ جو کچھ برآمد ہوا، حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین ہے، خیرہ کن!
سیالکوٹ، گجرات اور گوجرانوالہ پر مشتمل یہ خطہ 2200 برس پہلے دنیا کا تجارتی مرکز تھا۔ راوی اور چناب کے درمیان ، دریائے سندھ سے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر سیالکوٹ کبھی 67 ممالک پر مشتمل یونانی، ہندوستانی سلطنت کا دارالحکومت بن گیا تھا۔ 170 برس تک رہا۔ پھر کیا ہوا ؟ وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہن حملہ آور آئے تو ان کا ہدف ٹیکسلا تھا۔ معلوم نہیں کہ ٹھیک ٹھیک ان کا زمانہ کون سا ہے؟ تاریخ کے سرسری مطالعے سے پتہ یہ چلتا ہے کہ بدھ راہبوں نے مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 70 ہزار گردنیں شہسواروں کے سامنے جھکیں اور کاٹ دی گئیں۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی۔ جھکی گردنیں سجدہ ریز ہوتی ہیں یا سپر انداز۔
مشرق و مغرب کے ہر دیار کی تاریخ یہی ہے۔ کوئی شہر بستا اور کوئی اجڑتا ہے۔ کوئی قبیلہ بڑھتا اور کوئی پسپا ہوتا ہے۔ ملکوں اور قوموں کی سرحدیں ، بنتی ، بگڑتی رہتی ہیں۔ قرار ، قیام اور استقلال صرف تغیر کو ہے۔ یہ قدرت کا دائمی قانون ہے۔ ابدیت سفر کو ہے مسافر کو نہیں۔ علم و ادراک کو ہے ، لشکروں کو نہیں۔ عمیق نگاہ سے مغرب کو دیکھا تو اقبال ؔنے کہا تھا۔
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
فلسفی نے یہ بھی کہا تھا کہ قومیں افلاس نہیں احساس کی موت سے فنا ہوتی ہیں۔ شعور جب کمتر ہو جاتا ہے تو اس کی جگہ جذبات لیتے ہیں۔ غور و فکر کی بجائے تنگ نظری ، وحشت اور جنون۔ ہم اسی میں مبتلا ہیں۔ ایک ہولناک کنفیوژن کا شکار۔ جس مسافرکی کوئی سمت نہ ہو، اس کی کوئی منزل بھی نہیں ہوتی۔
میں ہوں وحشت میں گم تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولا رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
دنیا بدل گئی، رفتہ رفتہ بہت بدل گئی۔ یہ 2200 برس پہلے کا سیالکوٹ نہیں، جب معیشت کا انحصار تجارت پہ تھا۔ جب اناج ‘ کپاس اور اون دساور بھیجے جاتے۔ یہ جدید دنیا ہے۔
ایشیا بھر میں چمڑے کی تجارت کے 14 بڑے مراکز میں سے تین پاکستان میں تھے۔ کراچی، قصور اور سیالکوٹ۔ دو بند ہو چکے۔ قصور کا اس لئے کہ کھالوں کی دھلائی سے آلودہ پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ نہ لگایا جا سکا۔ معلوم نہیں کراچی میںکیا ہوا جہاں الطاف حسین کا غارت گر لشکر بھی کارفرما تھا۔ اب صرف سیالکوٹ‘ جہاں فقط چمڑے کی مصنوعات ہی نہیں ، فٹ بال اور آلاتِ جراحی بھی؛ اگرچہ کھالوں کے پاکستانی ملبوسات بھی دنیا بھر میں بہترین ہیں۔ یہاں بننے والی چمڑے کی ایک جیکٹ ایسی بھی ہے‘ نیویارک میں جو 1400 ڈالر تک قیمت پاتی ہے۔ ان جیکٹوں کی آمدن سے سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کا بوٹا گاڑا گیا۔ کراچی کے بعد سیالکوٹ زر مبادلہ کمانے والوں کی سب سے بڑی بستی ہے۔ گجرات، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی سنہری تکون‘ قومی برآمدات کا ایک چوتھائی فراہم کرتی ہے۔ لاہور اور فیصل آباد تو جو کچھ پیدا کرتے ہیں، ٹیکسٹائل کے سوا، سب کچھ یہیں کھپ جاتا ہے۔
گجرات‘ گوجرانوالہ اور وزیر آباد کی کہانی پھر کبھی۔ بہرحال سنہری تکون سے برآمدات میں اضافہ ممکن ہے اور بہت غیر معمولی اضافہ۔ موسم گرما کے اختتام سے پہلے‘ لاہور‘ سیالکوٹ موٹر وے انشاء اللہ کھول دی جائے گی۔ تب چینی تاجر زیادہ بڑی تعداد میں اس شہر کا رخ کریں گے۔ فی الحال وہ لاہور میں قیام پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں اور راہ طویل۔ ایسے ہوٹل بھی سیالکوٹ میں نہیں، جہاں سفر کے ہنگام کھرب پتی تاجر کی انا آسودہ ہو۔
سیالکوٹ کے تاجروں نے نئے پاکستان کی حکومت سے کہا کہ 48 گھنٹوں میں ایک ارب روپے وہ فراہم کر سکتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ ارب سرکار ڈال دے۔ ضلع بھر کی شاہراہیں مثالی ہو جائیں گی۔ موٹرگاڑیاں جن پر کشتیوں کی طرح تیر سکیں گی۔ رہے پنج ستارہ ہوٹل تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ گاہک جہاں موجود ہو، دکاندار کھنچے آتے ہیں۔ سرکار نے انکار کر دیا ہے۔ فرمایا کہ سڑکیں اور پل ہماری ترجیح نہیں۔ اللہ کے بندو‘ برآمدات بھی کیا تمہاری ترجیح نہیں؟ رہے مردانِ کار تو ان کا قحط تھا۔ اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ ڈاکٹر سعید اختر جیسا کوئی دیوانہ خدمتِ خلق پر تلا ہو تو ”نثار‘‘ ہونے کے لیے کوئی ثاقب موجود۔
اب اس دیار کا چلن نعرے بازی ہے۔ شہسوار اب وہ ہے جس کے لیے زیادہ تالی پٹے اور پٹتی چلی جائے۔ رہا کام کاج تو ازل سے ہوتا آیا ہے ۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں/ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیاخنجر اور تلواریں گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد میں صدیوں سے ڈھلتی آئی ہیں۔ یہ 1863ء تھا جب سیالکوٹ کے انگریز ڈپٹی کمشنر کی معالج اہلیہ کو ایک مریضہ کا آپریشن کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ جراحی کے چاقو (Surgical Knife) کی ضرورت پڑی۔ یہ ایشیا میں آلاتِ جراحی کی سب سے بڑی صنعت کا آغاز تھا۔ سیالکوٹ چھاؤنی کی قائد اعظم روڈ پر ایک گرجا گھر کے پہلو میں وہ بھٹی اب بھی موجود ہے، جس میں وہ چاقو ڈھالا گیا۔ جمعرات کی شام‘ آفتاب جب ڈوب رہا اور ماہتاب ابھر رہا تھا‘ اخبار نویس یہ دلآویز عمارت دیکھنے گیا۔ پریس بائی ٹیرین (Presbyterian) فرقے کا یہ گرجا گھر162 برس سے اسی آن بان سے کھڑا ہے۔ وہی فلک بوس چوبی چھت‘ ڈیڑھ‘ پونے دو برس پرانے وہی بینچ‘ وہی ستون اور شیشے کے باکس میں دھری‘ مدراس سے لائی گئی وہی انجیل۔ پریس بائی ٹیرین فرقے والے عبادت گاہ میں بت نہیں سجاتے۔ وہی قدیم سادگی‘ وہی وقار۔ شنگھائی سے نیو یارک تک اور مشرق وسطیٰ سے وسطی ایشیا تک اربوں نہیں کھربوں ڈالر کی مارکیٹ ہمارے آلات جراحی کی منتظر ہے۔
پاکستان بہترین میں سے بہترین فٹ بال بناتا ہے۔ سب سے مقبول کھیل کے لیے۔ پتہ نہیں کس سیانے نے کب سمجھایا، سیالکوٹ کے صنعت کاروں نے طے کر رکھا ہے کہ اپنی بعض منصوعات صرف عالمی منڈی میں بیچیں گے۔ حاصل یہ کہ معیار ہمیشہ عالمی سطح کا رہتا ہے۔ گجرات کا فرنیچر ہے۔ صرف جی ٹی روڈ پر ایک سو کے لگ بھگ بڑے شو روم ۔ شاندار مصنوعات کی جن میں نمائش رہتی ہے۔ دنیا بھر میں ایسے نفیس ، پلنگ ، صوفے اور کرسیاں کہیں نہیں ملتیں۔
ایک صدی پہلے تک ، پورے برصغیر میں کلکتہ چرمی کاروبار کا مرکز تھا۔ اس کی رونق چنیوٹ کی پراچہ برادری کے دم قدم سے تھی۔ قصور اور سیالکوٹ کے شیخ بھی اس ہنر میں طاق ہیں۔ ابتدا سے دو مسائل کا سامنا ہمیں تھا۔ مسلمان کاروبار میں تھے ہی نہیں، شاید ایک فیصد سے بھی کم۔ بعض کاروباری قرینوں سے اب بھی ہم واقف نہیں۔
مثلاً اشیا میں نفاست کا اہتمام۔ دوسرے‘ موزوں منڈیوں کی تلاش۔ ہم ایک جلد باز قوم ہیں اور کاروبار تحمل طلب۔ صرف ایوب خان کے عہد میں باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ ادارے تشکیل پائے کہ صنعتکاری کے لیے معقول ماحول مہیا ہو۔ جدید کارخانوں کی بنیادیں رکھی گئیں۔ ان دنوں جاپان کے سوا ایشیا میں شاید سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی پذیر سرزمین۔ پھر نعرہ باز آن براجے۔ پھر تالی بجانے والے نمودار ہوئے اور چھا گئے۔ اب یہ صنعت عروج پر ہے اور جانے کب تک رہے گی۔
ترقی کرنا ہے تو نئی دنیا سے سیکھنا ہو گا۔ اس کی توفیق نہیں تو کراچی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، وزیر آباد اور گجرات سے۔
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی، تری قسمت کی پستی ہے