بینظیر سے بلاول تک!

بلاول زرداری کی نیب میں پیشی کے موقع پر نیب کے دفتر کے باہر پیپلز پارٹی کے جیالوں کو پولیس سے لڑتے مرتے دیکھ کر خیال آیا کہ کیسے دھیرے دھیرے ہمارے جیسے لوگوں کے سب رومانس مر جاتے ہیں۔ لیکن پولیس کو مارتے اور پولیس سے جواباً مار کھاتے ان جیالوں کو دیکھ کر عجیب سا رشک محسوس ہوا کہ کیسے ان تمام برسوں میں ان کا رومانس نہیں مرا۔ کتنے خوش قسمت لوگ ہیں‘ وہیں کھڑے ہیں جہاں برسوں پہلے ہم سب کھڑے تھے اور سوچتے تھے کہ اب ایسی لیڈر ملک کی سربراہ بن گئی ہے جو لندن، دوبئی، نیویارک اور سوئٹزرلینڈ میں جائیدادیں یا بینک اکائونٹ نہیں بنائے گی۔

پھر خیال آیا‘ پولیس سے لڑتے ہوئے ان لوگوں کو اس بات کی پروا نہیں رہی کہ ان کا پیسہ کہاں گیا، کون لوٹ گیا اور کس کی جیب میں گیا۔ ان کے نزدیک یہ سب سیاستدان ان کے رول ماڈل ہیں اور ان کے پاس ایسی گیدڑ سنگھی ہے جو کسی دن ان کے ہاتھ لگ گئی تو وہ بھی ان کی طرح امیر ہو جائیں گے۔ ان لوگوں کو میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ ہر جماعت میں ہیں۔ ہر دفعہ یہ پولیس سے لڑتے ہیں اور جاتے وقت ایک بریانی کی پلیٹ لے کر خوش خوش گھر لوٹ جاتے ہیں‘ جبکہ ان کے لیڈرز وہ سب پیسہ لے کر باہر نکل جاتے ہیں جو انہی جیالوں یا غریبوں پر لگنا تھا۔

ویسے داد دیں ان سیاسی کھلاڑیوں کو۔ یہ کھیل کھیلنا آسان نہیں ہے کہ جنہیں آپ لوٹ رہے ہوتے ہیں انہی کو اپنے حق میں سڑکوں پر لا کر پولیس سے لڑوا بھی دیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا یہ سب جیالے زرداری اور بلاول کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے نیب کے باہر جمع ہوتے کہ آپ لوگوں نے ہمیں کیوں لوٹا، ہمارے بھروسے کو کیوں ٹھیس پہنچائی‘ لیکن یہ سب اکٹھے ہوئے کہ آپ نے ان پر ہاتھ کیوں ڈالا۔

ان سیاسی ورکرز کو کرپٹ کرنے میں سب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نواز شریف نے وزیراعظم بنتے ہی بینکوں کا منہ کھول دیا تھا کہ قرضہ لو جو واپس نہیں کرنا پڑے گا یا پھر نیلی پیلی ٹیکسیاں لے کر دیں۔ پچھلے برسوں میں انہوں نے لیپ ٹاپ بانٹ دیے۔ زرداری بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر ایک ہزار روپے ماہانہ کی سکیم لائے۔ پہلے لیڈرز ایماندار تھے تو ورکر بھی نظریے کے لیے ریاست سے لڑتا تھا۔ بہتر معاشرے کے لیے کوشش کرتا تھا۔ پھر وہ لیڈر رہے اور نہ ہی ورکز۔ انیس سو پچاسی کے انتخابات نے پاکستانی معاشرے میں آخری کیل ٹھونک دی۔

سیاست خدمت نہ رہی بلکہ مال و دولت بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ پھر چل سو چل۔ نواز شریف نے دولت کے بے رحمانہ استعمال سے سب کو خریدنا شروع کیا اور ایک دن بی ایم ڈبلیو گاڑی کی چابی اپنے آرمی چیف کو دینے کو کوشش کی تو سب کو اندازہ ہوا کہ معاملہ کہاں جا پہنچا ہے۔ نواز شریف سکول آف تھاٹ نے اس امیج کو ابھارا کہ ہر بندے کی ایک قیمت ہوتی ہے‘ اور اسے خریدا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کا خیال اتنا غلط بھی نہ تھا۔ ہر کوئی قطار بنا کر کھڑا ہوگیا۔ سب کے لیے سب کچھ ان کے پاس تھا۔ کچھ پیسے کے شوقین نہ تھے تو ان کے لیے مختلف پُرکشش عہدے تخلیق کیے گئے۔ جو زیادہ سمجھدار تھا وہ سینیٹر بن گیا یا پھر اس سے زیادہ سمجھدار تھا تو وہ صدر بن گیا۔ میڈیا اور عدالتوں کے ریٹائرڈ ججوں پر خصوصی مہربانی کی گئی کہ ایک نے ان کا امیج بہتر کرنا تھا تو دوسرے نے انہیں پھنس جانے کی شکل میں ریلیف دینا تھا۔

پھر خیال آیا ہر جگہ اپنا بندہ ہونا چاہیے۔ یوں ہر محکمے میں وفاداروں کی تلاش شروع ہوئی۔ قابلیت ایک ہی تھی کہ وفادار ہوں۔ وہ جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتے کرتے سر کٹوا دیں۔ ایک صاحب جو بارہ اکتوبر کی فوجی بغاوت کے وقت ایم ڈی پی ٹی وی تھے نے ایک روز بتایا کہ جب فوج نے پی ٹی وی پر قبضہ کیا ہوا تھا اور جنرل مشرف کی برطرفی کی خبر دوبارہ نہیں چلنے دی جا رہی تھی تو اس وقت وزیر اعظم ہائوس سے حسین نواز کا فون آیا کہ خبر چلوائیں۔ بتایا گیا کہ فوج آ گئی ہے‘ تو حسین نواز نے کہا: آپ لڑ جائیں‘ شہید ہو جائیں‘ یہی وقت ہے اپنی وفاداری ثابت کرنے کا۔ ایم ڈی ہکا بکا کھڑا حسین نواز کی باتیں سن رہا تھا‘ جو اسے مرنے کی تلقین کر رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اسے ایم ڈی لگا کر انہوں نے اس کی زندگی کا حق بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔

ان جیالوں کو لڑتے دیکھ کر خیال آیا‘ انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ ایک رومانس مرتا ہے تو وہ زندہ رہنے کے لیے نیا رومانس پال لیتا ہے۔ ہماری نسلوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ جنرل ضیاء کے طویل مارشل لا کی گھٹن سے باہر نکلے تو سب کو امید بندھی تھی کہ بھٹو کی بیٹی شاید پاکستان کو نئے راستے پر لگائے گی۔ اب برسوں بعد خیال آتا ہے کہ سب سراب تھا۔ سب دھوکا تھا۔ سرے محل تو وہ 1994 میں ہی خرید چکے تھے اور بینظیر بھٹو قومی اسمبلی میں اس سے انکار بھی کر چکی تھیں۔ انہی بینظیر بھٹو اور زرداری نے وہی محل بعد میں چالیس لاکھ پونڈ کا فروخت کیا جس سے وہ ساری عمر انکاری رہے۔

ہم سب کو لگتا تھا کہ بھٹو خاندان نے بہت تکلیفیں بھگتی ہیں‘ لہٰذا ان کے دل میں غریبوں کا بہت درد ہو گا۔ وہ اس لوٹ مار میں شریک نہیں ہوں گے جو ملک کے اس طبقے نے کی‘ جس کے نمائندے نواز شریف تھے۔ لیکن ان دس برسوں میں جو حشر ہم نے دیکھا‘ اس کے بعد کسی پر اعتبار نہیں رہا۔ سب دھوکا لگتا ہے۔ فراڈ لگتا ہے۔ جو جتنا عوام کے لیے مرنے کی قسمیں کھاتا ہے اتنا ہی یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ دو نمبری کر رہا ہے‘ اور کچھ عرصے بعد اس کے بھی سرے محل اور فلیٹس برآمد ہوں گے۔

آصف زرداری نے اس ملک کے ساتھ باقی جو کچھ کیا‘ سو کیا‘ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ اگر اقتدار پانا ہے تو انہیں نواز شریف سے زیادہ دولت کمانا ہو گی۔ یوں بڑے پیمانے پر پیسہ بنایا گیا۔ یہ پیسہ اس ملک کے ان غریبوں کا تھا‘ جو بدھ کے روز پولیس سے جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ بینظیر بھٹو اس سے پہلے ایک اور بات پر بھی قائل ہوئی تھیں کہ ہمیشہ امریکہ سے بنا کر رکھنی ہے۔ وہ جان چکی تھیں کہ بھٹو کو پھانسی اس وقت لگی‘ جب وہ امریکی مفادات کے خلاف چل پڑے تھے۔ امریکی بھی بجا طور پر بھٹو سے خفا تھے کہ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا اور بچے کھچے پاکستان کیلئے نئے وزیراعظم کی تلاش شروع ہوئی تو امریکیوں کی آنکھ بھٹو پر پڑی۔ بھٹو اس وقت امریکہ میں تھے جب سولہ دسمبر ہوا۔ نکسن اور کسنجر کے درمیان فیصلہ ہوا۔ بھٹو کی ملاقات کسنجر سے ہوئی اور یوں بھٹو کو وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار ہوئی۔ وہی بھٹو بعد میں امریکہ سے لڑنے پر تل گئے تھے۔

یوں بینظیر بھٹو نے باپ کی پھانسی سے ایک ہی سبق سیکھا جو مرتے دم تک ان کے کام آیا۔سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی کتاب پڑھیں تو اس میں پورا باب ہے کہ کیسے اس نے بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان این آر او کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

شیکسپیئر کے ڈراموں میں اس کے ہر ہیرو کے زوال کی وجہ اس کا tragic flaw ہوتا ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک خوفناک کمزوری ضرور ہوتی ہے جو زوال کی وجہ بنتی ہے۔ بینظیر بھٹو کا tragic flawزرداری صاحب کو سمجھا جاتا ہے۔ یہی زرداری تھے جنہوں نے آکسفورڈ کی گریجویٹ اور ابھرتی خاتون لیڈر کو پیسے بنانے پر لگا دیا۔ لندن میں سرے محل خرید لیا گیا تو سوئٹزرلینڈ میں ساٹھ ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی گئی۔

پچھلے الیکشن میں بلاول زرداری کے گوشوارے سامنے آئے تو ہم سب کو احساس ہوا کہ کتنی دولت کمائی گئی تھی۔ زرداری نے سب دولت بلاول کو ٹرانسفر کر دی تھی جس کا اب ان کے پاس کوئی جواز نہیں کہ کہاں سے آئی تھی۔

دنیا کا کون سا کونا ہے جہاں بلاول کی جائیداد نہ ہو۔ کون سا بینک ہے جہاں اکائونٹ نہ ہو۔ آصف زرداری نے پہلے بینظیر بھٹو کو مال بنانے کی اہمیت پر قائل کیا تھا اور وہ برسوں عدالتی معاملات بھگتتی رہیں‘ اور جلاوطن تک ہوگئیں تاکہ زرداری کا پیسہ بچا رہے۔ اب بلاول کی باری لگ گئی ہے کہ باپ کی جائیدادیں بچائیں۔ جو کام بینظیر بھٹو سے لیا گیا تھا وہی بلاول سے لیا جارہا ہے۔

یہ سوچ کر ہی دل دکھی ہو جاتا ہے کہ ماں بیٹے کا Tragic flaw ایک ہی نکلا۔ ایک ہی بندہ دونوں کے زوال کا سبب بنا۔ بینظیر بھٹو کے زوال کی وجہ اس کا خاوند تھا تو اب بلاول کو نیب کا ملزم بنانے میں بھی ان کے باپ کا ہاتھ نکلا ہے۔

بینظیر بھٹو اور بلاول… ماں بیٹا ایک ہی ڈنک سے ڈسے گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے