مرہم کا موسم

کیویز کی سر زمین پر نیوزی لینڈ کی تاریخ نے یہ منظر پہلی بار دیکھا۔ کلامِ الٰہی میں سے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153 سے 156 تک کی تلاوت‘ جس کا ترجمہ یہ ہے:

”اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔ اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوش خبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کا مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے‘‘۔

47/48 لاکھ آبادی کے ملک کی منتخب وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن اس تباہ کن مرحلے پر عالمی مدبر بن کر سامنے آئیں۔ مدبر ماں کہنا زیادہ مناسب ہو گا اور مسلم دکھیاریوں کی بہن بھی۔ عام سی شکل و صورت والی اِس آئرن لیڈی کو شہید نمازیوں کے بے گناہ خون نے ہلا کر رکھ دیا؛ چنانچہ جیسنڈا آرڈرن نے 15مارچ کو کرائسٹ چرچ فائرنگ کی خبر ملتے ہی سر پر دوپٹہ پہنا اور دوپٹے والی مسلم خواتین کو گلے سے جا لگایا۔ وزیر اعظم نیوزی لینڈ کے چہرے سے اجڑی ہوئی گودوں کا نوحہ عیاں تھا‘ جسے دیکھ کر دنیا کے کروڑوں نارمل ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے۔ جیسنڈا آرڈرن نے Shallow leaders کی طرح مظلوموں کے ساتھ فوٹو سیشن نہیں کیا بلکہ فرسٹ ری ایکشن سے لے کر نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اولین اجلاس تک اپنے شہریوں کے درد کا لبادہ اوڑھ لیا۔ فرسٹ ری ایکشن کے ذکر سے مجھے جیسنڈا آرڈرن کی ٹی وی پر پہلی گفتگو یاد آ رہی ہے۔ یقین کیجیے مجھے یوں لگا جیسے محکمہ پولیس یا شیرف ڈیپارٹمنٹ کی کوئی سپوکس پرسن حادثے کی تفصیلات بتانے ٹی وی سکرینوں پر آئی ہے۔ پھر غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ دھان پان سی یہ خاتون نیوزی لینڈ کی منتخب چیف ایگزیکٹو ہیں‘ جو اپنے ملک کی مسلم اقلیت پر سب سے پہلے خود بول رہی ہیں۔

نیوزی لینڈ ان مما لک میں سے ایک ہے‘ جو فلاحی ریاست کہلاتے ہیں‘ جس طرح نام رکھ دینے سے کوئی ملک جمہوریہ‘ ری پبلک، اسلامیہ وغیرہ نہیں بن جاتا‘ اسی طرح سے فلاحی ریاست کا نا م رکھ دینے سے ملک ویلفیئر سٹیٹ نہیں بن سکتا۔ فلاحی ریاست بننے کے لیے ایک خاص طرزِ عمل اور سوچ درکار ہے جس کا عملی مظاہرہ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کیا۔ اس کے چند خاص پہلو یوں ملاحظہ ہو سکتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نیوزی لینڈر وزیرِ اعظم اول و آخر گوری ہیں۔ شہید نمازی مسلمان اور تقریباً سارے ہی ایشین ہیں۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل نمبر 4 اور 25‘ دونوں ہی شہریوں کی برابری کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ وہ بھی نا قابلِ تنسیخ بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کے طور پر۔ وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن نے لفظوں کا قیمہ کیے بغیر معرکہ آرا غیر متزلزل کردار کا مظاہرہ کیا۔ پہلے دن سے گورے دہشت گرد کو دہشت گرد اور بزدل نسل پرست کہہ کر پکارا ۔ اسے محض جنونی ماننے سے انکار کر دیا۔

برینٹن کو ذہنی مریض کے لبادے میں بھی نہیں ڈھانپا ۔ جیسنڈا آرڈرن نے پو ری نسوانی وجاہت اور ہمت سے کہا: شہرت کے اس بھوکے کو بے نام کر دوں گی ۔ اپنے کسی خطاب میں پی ایم نے برینٹن کو دہشت گرد اور بزدل قاتل کے علاوہ کسی دوسرے نام سے نہیں پکارا ۔ یہ بھی مغرب کی تاریخ میں پہلی مر تبہ ہوا کہ کسی ریاست کے سربراہ نے کالی بھیڑ کو کالی بھیڑ کے علاوہ کچھ اور کہنے سے برملا انکار کر دیا ۔ وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن کے اس دلیرانہ موقف پر پوری قوم ان کی پشت پر آ کھڑی ہوئی۔ کرائسٹ چرچ کے چرچ، کرائسٹ چرچ شہر کے چوک، میونسپلٹی، حکومتی ادارے اور شہری مظلوم مسلم روحوں کے ہم نوا بن گئے ۔ جیسنڈا آرڈرن کا دوسرا تاریخ ساز موقف تب سامنے آیا‘ جب امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے اُنہیں کرائسٹ چرچ فائرنگ کے واقعہ پر ہمدردی کے اظہار کے لئے ٹیلیفون کال کی ۔

ڈی جے ٹرمپ نے وزیرِ اعظم جیسنڈا سے پو چھا:
Prime Minister, What can I do on the christ Chruch killing incident?
جیسنڈا کے جواب نے نہ صرف سپر طاقت اور چھوٹے ملک کے درمیان ڈائیلاگ کی تاریخ بدل کر رکھ دی بلکہ ڈی جے ٹرمپ کو بھی لا جواب کر دیا۔ کیوی وزیر اعظم نے کہا:
Mr. President Show solidarity with the victims of christ Chruch .

جیسنڈا کے اس تاریخی مکالمے کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی متنازعہ ٹویٹ واپس لینا پڑ گئی‘ جس کے ذریعے اس نے نسل پرستانہ مؤقف کو پروموٹ کیا تھا۔ کیویز کی لیڈر نے پھر اپنے من کی سچائی اور مؤقف کی پختگی کے عملی اقدامات کی پوری سیریز چلا دی۔ نیوزی لینڈ میں اذان نشر کرنے کا اقدام۔ پورے ملک میں سرکاری طور سوگ منانے کا اقدام۔ سب سے بڑے چرچ میں سفید جوڑوں کا مظاہرہ۔ مختلف ادیان، تہذیبوں اور سوچ کے کمیونٹی لیڈرز ایک جگہ جمع کر کے مسلمانوں کی دل جوئی۔ آٹو میٹک، سیمی آٹو میٹک اور فوجی طرز کی گنوں پر پابندی۔

زخمیوں، شہید نمازیوں اور ان کے خاندانوںکے لئے ہر طرح سے سہولت کاری ۔ جیسنڈا آرڈرن کے پے در پے اقدامات سے یوں لگتا ہے جیسے کیویز کی سر زمین پر مرہم کا موسم اتر آیا ہے۔
وہ عزم ہو کہ منزلِ بیدار ہنس پڑے
ہر نقشِ پا پہ جرأتِ رہوار ہنس پڑے
اب کے برس بہار کی صورت بدل گئی
زخموں میں آگ لگ گئی گلزار ہنس پڑے
مٹ جائے تیرے نام سے ہر تلخیِ جفا!
وہ کام کر کہ بے کس و نادار ہنس پڑے
میرے جنوں نے آج وہ سجدہ ادا کیا!
بت خانۂ حیات کے آثار ہنس پڑے
پھر شادماں ہوئے ہیں خرابے حیات کے
ساغرؔ کسی کے گیسوئے خم دار ہنس پڑے

پچھلے چند عشروں میں اسلامو فوبیا کی جو انجینئرڈ لہر اٹھائی گئی اس کے پیچھے سیاست تھی۔ مسلم آزاری پر مبنی اس جدید سیاست کی اسفل ترین مثال ڈونلڈ ٹرمپ سے ملتی ہے۔ بے پناہ طاقت کے زعم میں مبتلا امریکی صدر چاہتے تھے کہ دنیا اس طرزِ سیاست کو نیو ورلڈ آرڈر مان لے‘ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ مغرب کے لیڈروں میں سے وہ لوگ جو ٹرمپ کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے‘ ان کا ڈر جیسنڈا آرڈرن نے پرے اُٹھا مارا۔ اس ایک خاتون کے بلند عزم نے نیوزی لینڈ میں ایک اور ایسا منظر دکھا دیا‘ جس کا مظاہرہ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوا۔

اور وہ یہ کہ یہودیت کے ماننے والوں نے بھی کرائسٹ چرچ کے سانحے پر مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے سوگ منایا۔ جیسنڈا کے دستِ شفا کی اور کوئی تاثیر ہو نہ ہو اس نے نیو نازی ازم کے زخم خوردہ مغربی سماج کو بھی مرہم فراہم کر دیا ہے‘ جس کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کی جدید تعلیم یافتہ یوتھ نے اسلامو فوبیا کے سب سے بڑے پرچارک کا گھر سے نکلنا مشکل بنا کر رکھ دیا۔ آسٹریلیا کا سینیٹر جسے پہلے ”EGG-Boy‘‘ نے ایکسپوز کر دیا۔ جیسنڈا آرڈرن کی مثال قابلِ توصیف کم قابلِ تقلید زیادہ ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے: معاشرہ کفر کے نظام پر چل سکتا ہے ظلم کے نظام پر نہیں۔ چلیے جیسنڈا آرڈرن نے ایک بات تو طے کر دی‘ ظالم کسی ریاست کا رشتے دار نہیں ہو سکتا‘ اور مظلوم کسی ریاست سے نظر انداز نہیں ہو سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے