فلمی کہانیاں اور حقیقی زندگی

‎یہ اس وقت کی بات ہے جب وی سی آر کا دور تھا اور سی ڈی / ڈی وی ڈی پلیئرز مارکیٹ میں نہیں آئے تھے …. میں اس وقت بہت چھوٹا تھا ، فلمیں دیکھنے کا بہت شوقین تھا – مذہبی خاندان تھا ، ٹی وی تک برا سمجھا جاتا تھا –

‎گاؤں میں ایک ہی جگہ تھی جہاں بیٹھ کر فلم دیکھی جا سکتی تھی … ایک تنگ و تاریک کوٹھری … اتنی شکستہ کہ اس کے گرنے کا امکان بھی موجود تھا – وہاں سارے لوفر لفنگے اکٹھے ہوتے تھے … ان لوگوں کے درمیان بیٹھ کر فلم دیکھنا ایک اذیت ناک تفریح تھی ?

‎خیر ، جو فلمیں چلتی تھیں سب مار دھاڑ کی ہوتی تھیں – ان میں ایک بات ضرور مشترک تھی کہ ہیرو کو ہیروئن سے ملنے میں بہت رکاوٹیں ہوتی تھیں خاص طور پر ولن اور ہیروئن کے بھائی/باپ وغیرہ سے – میں ایک چیز نوٹ کرتا تھا کہ اس تنگ و تاریک کوٹھری میں بیٹھے ہر شخص ، چاہے وہ لوفر لفنگا تھا یا سلجھا سنورا بندہ ، سب کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہیرو کو ہیروئن مل جائے اور سارے ولن چاہے وہ لڑکی کے بھائی ہیں یا علاقے کا ٹھاکر ، سب ناکام ہوں –

‎میں وہاں بیٹھ کر سوچتا تھا کہ اگر حقیقت میں ہیروئن ان لوگوں میں سے کسی ایک کی بہن ہوتی تب ان کا کیا ردعمل ہوتا ؟ کیا یہ تب بھی ہیرو ہیروئن کی محبت کا ساتھ دیتے یا غیرت میں آ کر ولن بن جاتے …. ؟؟؟؟ میرے سوال کا جواب کیا ہو سکتا تھا آپ سب جانتے ہوں گے –

‎تب میں نے ایک بات سمجھی تھی کہ ایک فرضی کہانی میں سچائی کا ساتھ دینے میں اور حقیقی زندگی میں سچ کے ساتھ کھڑے ہونے میں بہت فرق ہے –

‎اسی طرح کچھ اور کہانیاں بھی ہیں جو اس منظر کو ذرا زیادہ واضع کرتی ہیں –

‎میں نے اکثر لوگوں کو فلسطین شام کشمیر اور عراق وغیرہ کے واقعات پر تڑپتے دیکھا ہے – یہ تڑپ اور جذبہ جائز ہے – مگر میں نے اکثر سوچا ہے کہ وہ سب لوگ جو ہمارے ہمسائے ہیں ، اہل محلہ ہیں ، شہر کے لوگ ہیں ، ملک کے لوگ ہیں …. جن کے حقوق کو ہم دن کچلتے ہیں ان مسلمانوں میں اور عراق و شام ، اور فلسطین و شام کے مسلمانوں میں ایسا کیا جوہری فرق ہے کہ ہم ان کے تڑپتے ہیں اور ان کو کچلتے ہیں ؟ مجھے لڑکپن میں ہی جو جواب سمجھ آیا تھا وہ یہی تھا کہ ان (دور پار کے مسلمانوں ) کے لئے ہم صرف حقوق مانگتے ہیں جبکہ ان (مقامی مسلمانوں ) کو حقوق دینے پڑتے ہیں – مانگنا آسان ہے ، دینا مشکل –

‎یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرنے کو بہت دل مچل رہا ہے ، خدارا طوالت پر معاف کیجئے گا – ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ایسی فیملی کے ہاں کھانے کی دعوت پر جانا ہوا جو خود کو بہت ہی روشن خیال سمجھتی ہے اور جن کے نزدیک سوائے چند پاکستانیوں کے باقی سب پاکستانی منافق ہیں – خیر ، دعوت پر مجھے خاتون خانہ نے بلایا ہوا تھا – ملنے کے لئے ان کے گھر پہنچا – اب مسئلہ تھا کھانا بنانے کا – شوہر نامدار صاحب میرے پاس بیٹھے جن سے میری صرف یاد اللہ تھی ، اور خاتون خانہ نے باورچی خانے میں کھانا بنایا جن کا میں مہمان تھا – تقریبا ڈیڑھ گھنٹے میں بیٹھا میاں کی سنتا اور اسے اپنی سناتا رہا ، کھانا لگایا گیا ، میزبان اتنی تھک چکی تھی کہ شکل سے صاف ظاہر تھا – میں نے کھانا کھایا ، اجازت لی اور اس دن کے بعد توبہ کی کہ اگر کسی شادی شدہ خاتوں نے گھر بلایا تو سوائے چائے کے کچھ قبول نہیں کروں گا – کیا یہ حقوق کا معاملہ نہیں تھا کہ شوہر نامدار جو برابری کے قائل ہیں اپنی بیگم کو کہتے کہ آپ اپنے مہمان کو وقت دیں اور میں کھانے کا انتظام کرتا ہوں ؟ یہاں منافقت کیوں ؟ کیونکہ گھر سے باہر کی خواتین کے لئے حق مانگنا آسان ہے ، مگر اپنے گھر میں موجود خواتین کے حقوق تسلیم کرنا اور ان پر عمل کرنا ایک مشکل کام ہے – ہم آسان راہ چنتے ہیں –

‎نیوزی لینڈ کا واقعہ ہوا – وزیراعظم اور وزراء سے لے کر گلی محلے کے ایک عام آدمی تک سب کو تشویش تھی اور سب نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے ساتھ تھے – کیا بہاولپور کا ایک مسلمان پروفیسر نیوزی لینڈ کے مسلمانوں سے کم حیثیت کا حامل ہے ؟ میں انسانیت کی بات نہیں کروں گا کیونکہ وہ اکثر پاکستانی مسلمانوں کے لئے ایک مشکل موضوع ہے – مسلمان کی عزت حرمت اور اس کے مقام پر تو پوری مسلم برادری متفق ہے ناں – پھر کیا قباحت ہے ؟ آخر ہم اپنے ہم وطن مسلمانوں کے لئے کیوں بجنگ آمد ہیں ؟ وجہ وہی ہے کہ حق مانگنا آسان ہے حق تسلیم کرنا یا دینا زیادہ مشکل – نیوزی لینڈ میں مارنے والا کافر تھا ، ہماری غیرت کیسے گوارا کرے کہ ایک کافر ایک مسلمان کو مار گیا ؟ بہاولپور میں مرنے والا بھی مسلمان اور مارنے والا بھی مسلمان ، اب اس عمل کے لئے ویسا ردعمل کیسے دیں ؟ اس واقعہ کے آئینہ میں تو ہمیں اپنا چہرہ نظر آتا ہے اپنے بدصورت چہرے کو کریہہ کیسے کہیں ۔

‎ ہمیں مان لینا چاہئے کہ ہم منافق ہیں ، منافقت ہمارا شعار ہے ، ہم خیالی دنیا میں ہیرو ہیں مگر حقیقی دنیا میں ہم سے بڑا ولن کوئی نہیں – ہم ہر اس ظلم کو جسٹیفائی کرنے پر تیار ہیں جو ہمارا ہم مذہب مذہب کے نام پر ہمارے ہی ہم مذہب پر کرے ، مگر ہم ہر اس ظلم پر انگاروں میں لوٹتے ہیں جو کوئی غیر مذہب ہمارے ہم مذہب پر مذہبی یا غیر مذہبی کسی بھی بنیاد پر کرے – ہم لاعلاج ہو چکے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے