بعض چیزوں کی سمجھ اپنی عینک لگا کر دیکھنے سے نہیں آ سکتی۔ یہودی ہالوکاسٹ اور اس پر مغرب کی شرمندگی بھی شاید انھی میں سے ہے۔
نیوزی لینڈ میں پچاس مسلمانوں کے قتل کے بعد وہاں کے شہریوں اور وزیراعظم کی ندامت، حیا اور ہم دردی کے مظاہرے ہم کئی روز سے دیکھ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ توبہ نعوذباللہ اگر یہ تعداد سیکڑوں میں ہوتی تو؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہالوکاسٹ میں کتنے یہودیوں کا قتلِ عام کیا گیا؟ تحقیق و تفتیش سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد ساٹھ لاکھ تھی۔ ساٹھ لاکھ! ذرا سوچیے ساٹھ لاکھ! اور اُس وقت دنیا میں یہودیوں کی کل تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ تھی۔
اس ہالوکاسٹ کے بعد مغرب میں یہودیوں سے شرمندگی اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں اگر کوئی ہالوکاسٹ کی تردید کرتا یا اسے جسٹی فائی کرتا تو سوچیے اس شرمندہ معاشرے میں اس سے نفرت حق بجانب ہوتی یا نہیں۔ اس ہالوکاسٹ کی تصدیق یہودیوں نے بھی کی، مغرب اور اتحادیوں نے بھی کی، روسی کمیونسٹوں نے بھی کی اور خود نازیوں نے بھی کی۔
یعنی اندازہ کیجیے کہ ایک خطہ ساٹھ لاکھ انسانوں کے قتل پر شرمندہ ہے اور آپ کو ان کی شرمندگی پر بھی اعتراض ہے؟ صرف اس لیے کہ آپ یہودیوں کو بطور قوم اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟ کیا کسی کو معلوم ہے کہ خود اسرائیل کے یہودیوں کے اندر فلسطینیوں کے حقوق کی کتنی بڑی اور طویل جدوجہد چلتی رہی ہے؟ اور یہ جدوجہد وہی لوگ کرتے رہے ہیں جنھیں پاکستان میں آپ موم بتی مافیا کہہ کر ذلیل کرتے رہے ہیں؟
آج نیوزی لینڈ میں کوئی کرائسٹ چرچ سانحے کو جسٹی فائی کر سکتا ہے؟ نہیں۔ کرے گا تو اس کے سر پر کوئی ایگ بوائے انڈا پھوڑ کر اپنی نفرت کا اظہار کرے گا۔ سوچیے اگر کوئی ساٹھ لاکھ انسانوں کے قتل پر جسٹی فکیشن دے یا اسے deny کرے تو کیا ہمیں بھی اسے مسترد نہیں کرنا چاہیے۔
ہاں دنیا کے دو خطے ایسے ہیں جہاں کم یا وسیع پیمانے پر قتلِ عام پر شرمندگی یا سول سرچنگ کی عظیم روایت موجود نہیں۔ ایک افریقہ اور دوسرے ہمارا برصغیر! بلکہ شاید افریقہ کے ادیب اور اجتماعی ضمیر اس معاملے میں ہم سے بہتر ہی ہوں۔
رنگ، نسل، زبان، فرقے، مذہب کی بنیاد پر نفرت کو خیر باد کہنا ہوگا۔
ہولوکاسٹ تردید کی مخالفت کا یہی سبق ہے
جیسنڈا آرڈرن کے طرزِ عمل کا یہی سبق ہے۔