آپ نے توسند عطاکردی!

انسانی زندگی میں مختلف ادوارہوتے ہیں اور ان میں انسانی ذہن ارتقاکی طرف جاتاہے۔اپنامعاملہ بھی کچھ یوں ہے کہ منجمد ذہن وفکر کی بجائےمتحرک ذہن اورفکرعطاہوئے ہیں۔

ایک وقت تھا جب ہم اپنے لوگوں کی لاشیں گِرتی،گھر اجڑتےاورظلم ہوتادیکھتے تو نگاہیں ایسوں کی طرف اٹھتیں کہ شاید کوئی جملہ تسلی کا،کوئی بات دِلاسے کی سننے کومِلے مگر اکثرخاموشی رہتی یابات محض مذمت تک محدود تھی۔
ایک خاص نظریہ جس کے ہم ناقد بل کہ مخالف ہیں اس کے لیے اپنے موقف کی تائید بھی ہم چاہتے تھے ۔مگر اس پر ان کی طرف سے چوں کہ چناں چہ جیسے مصلحت آمیز جملے کہے جاتے۔ ہمارامطالبہ یہ ہوتا کہ ظلم کو ظلم کہا جاے اورپوری قوت سے کہاجاے۔کفر کوپھیلنے سے روکاجاے اور اس کے لیے آپ بھی اپنے فرائضِ منصبی اداکریں ۔

مگر اس پر ہمیں اپنے مؤدب احباب سے بے ادبی کےطعنے مِلتے۔ ہمیں دستار کی عظمتیں بتائی جاتیں ،ہمیں شیخ کے منصب وجاہ کے تقدس کاخیال رکھنے کوکہاجاتا ۔ہم خاموش ہوجاتے کہ کچھ زیادہ ہی گستاخی نہ کر بیٹھیں۔ ہم بچپن سے ہی گستاخ طبیعت کے تھے کہ ہمیں تقدس کاخیال نہ تھا۔ہم دستار کے تقدس کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کے قائل تھے جواحباب کو ناگوار گزرتا۔

خیر وقت بیتتا گیااور ہم میں کچھ تبدیلیاں رونماہوئیں۔ ہم نے دیکھا کہ ظلم ہم پر یاہمارے گروہ پر ہی نھیں دوسروں پر بھی ہورہاہے۔ مسئلہ محض کفر کوروکنے کا ہی نھیں بل کہ ظالم سے نجات کاہے۔سماج کے سلگتے مسائل ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔ہم کچھ اس طرح بھی سوچنے لگےکہ ہمارے گِرد بہنے والالہو ہماراہی نھیں کچھ اوربے گناہوں کابھی ہے جس کے بہانے میں کچھ ہمارے اپنے لوگوں کاہاتھ۔ ہے۔ہمیں احساس ہواکہ یہ لہو نھیں بہنا چاہیے ،یہ سماج پُرامن ہوناچاہیے۔

یہا ں خوف کی بجائے تحفظ کااحساس ہوناچاہیے۔ تب پھر نگاہیں انہی کی طرف اٹھتیں مگر یہاں سے وہی مصلحت، وہی خاموشی،وہی بے پروائی کہ شاید ان کاسماج سے واسطہ ہی نھیں۔ شکوہ یہی کہ فرض ِ منصبی ادانھیں ہورہا،ذمہ داریاں نھیں نبھائی جارہیں۔ پہلے دور میں بھی یہ خواہش ہوتی کہ دستِ قاتل وہاں تک پہنچے تاکہ احساس ہوکیسے ظلم ہوتا ہے اورکیسے درد سہناپڑتاہے۔یہ جو طبقہ اشرافیہ ہے نا!مذہبی سیاسی اورسماجی سب ہی ایسے ہوتے ہیں کہ نچلے طبقے کے مسائل سے یک سر لاپرواہ ولاتعلق۔ ایسوں کے لیے میں دعاگورہتاہوں کہ انھیں کچھ ٹھیس ضرور پہنچے کہ یہ جاگنے پر مجبور ہوں۔ جب ایسوں کو کچھ ہوتاہےتو مجھے کچھ اطمینان ساہوتاہے کہ آرزو پوری ہوئی اور پھر دکھ بھی اتناہی شدت سے ہوتاہے کہ ایسا کیوں ہوا۔

شیخ تقی عثمانی پر ہونے والے حملے سے دِل دہل ساگیا،تکلیف کی شدت کابیان ممکن نھیں،دیر تک ایک عجیب سی کرب کی کیفیت رہی۔ وجہ یہ تھی کہ ان سے عقیدت ،احترام اور ایک روحانی تعلق ہے۔ کچھ احباب ہمیں ادب وآداب سکھایا کرتے تھے ان سے عین دکھ اور غم کی کیفیت میں یہ سُننے کوملاکہ جی انھوں نےقوم کے منہ کو لہو لگایاتھاآج اپنے دامن خون آلود ہورہے ہیں ۔ یہ بات سن کر ہمیں یہ سند عطاہوئی کہ دستار کی عظمت اپنی جگہ مگر فرضِ منصبی اہم ہے۔ اگر ہم کل بے ادبی کرتے تھے توبجاکرتے تھے گوکہ عمر کے لحاظ سے سوچ محدود لیکن بات درست ہی تھی۔

مدعا فقط اتنا تھا کہ ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کی جاے گی تو کل آپ پر بھی وار ہوسکتاہے۔ بات آج بھی وہی ہے کہ جوسوچ سماج میں مذہب کے نام پر پھیل چکی ہے اس کو بدلنا ،اس کے خلاف سنجیدگی سے اور کھل کر بات کرنا آپ ہی کافرض ہے۔ آج آپ معجزانہ طور پر بچ گئے اس موقع کو غنیمت جانیے اور مرنے مارنے والے نظریہ کی ڈٹ کر مخالفت کیجیے۔ ظالم سے مصلحت آمیز لہجے میں بات کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پر سماج کو اس کے شر سے بچانے کی سعی کیجیے۔ اللہ ہم ایسے ناکارہ لوگوں کی عمریں بھی آپ ہی کولگائے اور آپ ایسوں کی حفاظت فرمائے کہ آپ کاوجود ایک نعمت ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے