سامنے یہ فردوسِ برّیں ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس کے خریدار اکثر کم ہوتے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے نئے پروگرام کی تحسین نہ کرنا شاید کٹھور پن ہو گا۔ غریب ترین طبقات کی داد رسی حکومت کے اوّلین فرائض میں سے ایک ہے۔ بیوہ عورتوں، ضعیف بوڑھوں، بے نوا کمسن بچوں اور ان مفلسوں کی دست گیری، جن کی زندگیوں میں امید کی کوئی کرن نہیں۔ میاں محمد بخش کے بقول حیات جب کیکر کی شاخوں سے الجھی دھجیوں ایسی ہو جاتی ہے۔
خود ترسی اور دولت کی محبت آدمی کی سرشت میں ہے۔ بنیادی طور پر وہ خود غرض ہے۔ اس لیے انفاق فی سبیل اللہ بہترین عبادت ہے، اپنے آپ سے جنگ۔ اس طرح آدمی خود کو تسخیر کرتا ہے۔ خود پہ غلبہ پا لے تو ساری زندگی کو فتح کر سکتا ہے۔ سورہ فاتحہ کے بعد‘ جو کامل صداقت کی ازلی و ابدی تمنا ہے، قرآن کریم کی پہلی ہی آیت روشنی اور صداقت کے متلاشیوں کو عطا کردہ رزق کا ایک حصہ دوسروں پہ صرف کرنے کی شرط عائد کرتی ہے۔ وہ جو آزمائش میں ڈالے گئے ہیں۔ نطق یا زبانِ حال سے فریاد کرتے ہیں ؎
قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو
کہ ہم تو پا بہ رسن ہیں، ابھر نہیں سکتے
قرآنِ کریم کا وعدہ ہے کہ صدقے سے مال بڑھتا اور دولت کی بے قابو محبت سے، سود سے کم ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں بہترین لوگ ہمیشہ وہ رہے جو دوسروں کا دکھ بٹاتے ہیں۔ یوثرون‘ ولو کان بھم خصاصہ۔ ایثار کرتے ہیں، خواہ تنگ دست ہوں۔
پناہ گاہوں کا سرکاری تجربہ کامیاب رہا۔ صاحبانِ توفیق ان کے لیے نمودار ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری پیشکش۔ یہ علامت اور شہادت ہے کہ معاشرہ ابھی زندہ ہے۔ بالا تر طبقات کے جبر سے مفاہمت، جہالت، کرپشن اور شخصیت پرستی کے باوجود امید اور امکان کی چنگاریاں اب بھی باقی ہیں۔ کیا عجب ہے کہ تعلیم اور شعور کے فروغ سے الائو کبھی بھڑک اٹھے۔ تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کر سوئی قوم جاگ اٹھے۔ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ربع صدی پہلے جب یہ عرض کیا تھا کہ دنیا کی دوسری اقوام کے مقابلے میں پاکستانی قوم دو گنا عطیات دیتی ہے تو لوگ چونکے۔ کچھ دوستوں نے مذاق بھی اڑایا۔ رفتہ رفتہ رفتہ اعتبار آنے لگا۔ بتدریج اس پہ فخر کیا جانے لگا اور فخر ہونا ہی چاہیے۔
اصلاً پاکستانی ایک فراخ حوصلہ قوم ہیں۔ ایسے ہیں، جو درد مندوں کا درد پالتے اور سینچتے ہیں۔ ایسے ہیں، جو خاموشی اور انکسار کے ساتھ غریب رشتے داروں کی مدد کرتے ہیں۔
کئی برس پہلے کہنہ سال ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے کاروانِ علم کے نام سے ان ذہین طلبہ کی سرپرستی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا تھا‘ جن کے خواب آنسو بن کر بہہ جایا کرتے۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت اب کمتر ضرور ہے مگر عزم بلند۔ ان بچوں کی کہانیاں ایک عجب ولولہ عطا کرتی ہیں، کاروانِ علم نے جن کا ہاتھ تھاما۔ ایک ایک سیڑھی چڑھتے، جو رفعت پہ پہنچے۔ اس بلندی پر، جہاں سے زندگی کا سٹیج وسیع اور قابلِ فہم لگتا ہے۔ ہمتیں جاگ اٹھتی اور انسانیت پہ اعتماد بیدار ہو جاتا ہے۔ جہاں ایک نوجوان کو یہ دنیا اپنے عزائم کے مقابل چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔
جس سمت میں چاہے، صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے تو صحرا بھی ہمارا
جیسا کہ عرض کیا تھا، لاکھوں تاریک گھروں میں چراغ جلانے کے بعد اب ڈاکٹر امجد ثاقب ایک عظیم یونیورسٹی کی تاک میں ہیں۔ ایک ایسی جامعہ جو ملک کو نئے عہد میں داخل کر دے۔ زندگی بوجھ نہ ہو، وبال نہ ہو۔ وہ شجر اُگیں، جن کا ثمر سب کے لیے ہو۔ وہ سبزہ نمودار ہو، جو کبھی ماند نہ ہو۔ تین سو سکولوں کے علاوہ وہ تین ایسے شاندار کالج چلاتے ہیں، جن میں آنے والے منور کل کے معمار پل رہے ہیں۔ چن چن کر ملک بھر سے بہترین اساتذہ آپ نے جمع کیے۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ درس گاہوں میں جانا ہوتا ہے۔ ان کی مسرت دیدنی ہوتی ہے۔ ابر و باراں میں جیسے کوئی کاشتکار حد نظر تک لہلہاتے سبزہ زار کو دیکھے۔
سر تا پا تشکر ہو جائے۔ سب جانتے ہیں کہ ہوا اپنا سب سے سہانا گیت دھان کے کھیتوں کے لیے گاتی ہے۔ کم کم لوگ ہیں، جو یہ بھی جانتے ہیں کہ ایثار کا بیج اگر شعور اور ادراک کے ساتھ بویا جائے تو کیسی فصل اگ سکتی ہے۔ وہ کہ جسے کبھی زوال ہی نہیں۔ جس کے شگوفوں سے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ ایک بیج سے بہت سارے بیج بنتے ہیں۔ ایک بیج سے ایک بالی۔ ایک بالی میں ستر دانے۔ ہر دانے سے ایک اور بالی۔ شجر سے شاخیں‘ شاخوں پہ پھول، پھول سے پھل، خیر اور ایمان کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز۔ شجر کی جڑیں گہری اور ٹہنیاں آسمان تک۔
ایمان بڑی عطا ہے۔ وہ میلکم ایکس کو ملک الحاج الشہباز بناتا ہے۔ درجات مگر علم کے ساتھ ہیں۔ وہ میلکم ایکس کو تاریخ ساز کردار میں ڈھالتا ہے۔ دنیا بھر کی جامعات بلکہ تخت و تاج کے دروازے سالک پہ کھول دیتا ہے۔
آٹھویں جماعت سے بھاگا ہوا میلکم کہتا ہے کہ ایک کے بعد دوسری یونیورسٹی اور ایک کے بعد دوسرے حکمران نے اسے مدعو کیا۔ دانشوروں نے اس کی راہ میں آنکھیں بچھائیں۔ سیاستدانوں نے اس کے ساتھ ملاقات کو افتخار سمجھا؛ حتیٰ کہ گھانا کی پارلیمنٹ نے اسے خطاب کی دعوت دی۔ بالآخر وہ تاریخ میں امر ہو گیا۔ اس لیے کہ عالیجاہ محمد کی بارگاہ سے جڑے رہنے کی بجائے ادراک اسے قرآنِ کریم تک لے گیا، پھر اس کے گہرے معانی تک، حتیٰ کہ انفس و آفاق کی تاریکیوں میں اس پر روشنی پھوٹ پڑی۔ خیرہ کن مقبولیت کے باوجود یہ اعزاز اس کے دوست کاسیس کلے کو حاصل نہ ہو سکا۔ محمد علی بننے کے باوجود جس کے اندر کا کلے زندہ رہا۔ اس لیے کہ غیر معمولی پہل کاری، جرأت اور ولولے کے باوجود وہ علم سے رغبت پیدا نہ کر سکا۔ پوری زندگی کی تلاش میں کبھی نہ نکلا۔
ایک اخوت ہی کیا، جس کا شعلہ بلند تر ہے، اور بھی ہیں۔ وہ بھی ہیں کہ جن کا کوئی نام نہیں۔ جن کے بائیں ہاتھ کو خزانہ بانٹنے والے دائیں ہاتھ کی خبر نہیں ہوتی۔ میرے مرحوم دوست ڈاکٹر ظہیر کی تعمیر ملت فائونڈیشن کے دو اڑھائی سو سکول جن میں آنے والے عہد کی بشارت لکھی جا رہی ہے۔ ریڈ فائونڈیشن اور غزالی فائونڈیشن۔
ان کے اساتذہ کی تربیت پائیدار اور ظرف زیادہ ہے۔ بعض کی عالمی معیار کے مطابق۔ طالب علم یہ جان کر حیرت زدہ رہ گیا کہ جس تعلیمی کورس کے لیے برطانیہ میں کم از کم دس ہزار ڈالر درکار ہوتے ہیں، غزالی فائونڈیشن میں وہ بلا معاوضہ ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ زیادہ معاوضوں کی پیشکش کے باوجود یہ اساتذہ اپنے ادارے سے جڑے رہتے ہیں۔
جو انبساط ایثار میں ہے، وہ حصول میںکہاں۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے۔
اللہ کی آخری کتاب جو پیمان، عمر بھر عبادت اور ریاضت کرنے والے، ہمہ وقت خود پہ نگران رہنے والوں سے کرتی ہے، وہ دوسروں کو ہر رعایت دے سکتے ہیں، خود کو کبھی نہیں، وہی افتادگانِ خاک کے لیے ایثار کرنے والوں سے ”لا خوف علیہم ولاھم یحزنون۔ خوف اور غم سے وہ آزاد کر دیے جاتے ہیں۔
وزیرِ اعظم کا پروگرام خوش آئند مگر ان کی پارٹی اور حکومت کا ڈھانچہ اس قابل نہیں کہ اتنے نازک اور مشکل کام کا بوجھ اٹھا سکے۔ اندیشہ ہے کہ بگڑے بچّے کم از کم ایک تہائی ہڑپ کر جائیں گے۔ ”اخوت‘‘ ایسے قابلِ اعتماد غیر سرکاری اداروں اور دستِ سخا دراز رکھنے والی مکرم شخصیات کو شریک کرنا چاہیے۔
سامنے یہ فردوسِ برّیں ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس کے خریدار اکثر کم ہوتے ہیں۔